جامع مسجد ممبئی بھارت کی قدیم و مشہور ترین مساجد میں سے ایک ہے، جس کی تاریخ تقریباً ڈھائی سو سال پر محیط ہے، مسجد اپنی طرزِ تعمیر اور نقش و نگار میں اپنی مثال آپ ہے، جس طرح مسجد کا ظاہری حسن و جمال اور قدیم اسلامی طرز تعمیر پر مشتمل ہے، اسی طرح مسجد میں قدیم اور مشہور کتب خانہ بھی ہے، جس میں بڑی تعداد میں قدیم قیمتی و نایاب عربی، فارسی اور اردو کے مخطوطات و مطبوعات موجود ہیں۔
دراصل مسجد کی تعمیر کے بعد سنہ 1835 میں ایک مدرسہ قائم کیا گیا۔ مدرسے کی تشکیل کے بعد کتابیں جمع کی جانے لگیں، حصول علم کے لیے 1920 میں یہاں دوسرے ممالک کے اہل علم کا آنا شروع ہوا، اس زمانے میں ملک یمن کے مذہبی رہنماؤں کی آمد ہوئی، امام ابراہیم بن احمد بن علی و خطیب پاکزہ نے یہاں امامت کی اور علمی میدان میں اپنے فرائض انجام دیے، انکے دور میں ہی ہاتھوں سے لکھی ہوئی کتابوں اور مخطوطات کا یہاں ذخیرہ جمع ہونے لگا۔
جامع مسجد ممبئی کا قدیم کتب خانہ مولانا یوسف کھٹکھٹے کی کوششوں اور کاوشوں کی بدولت ان کتابوں کو جمع کرنے اور انھیں محفوظ کرنے کا سلسلسہ شروع کیا گیا۔
موجودہ وقت میں مفتی اشفاق قاضی اور انکی ٹیم نے انہیں پوری طرح سے ڈیجیٹلائیز کرنے کا آغاز کیا، پرانی کتابوں کے بوسیدہ اوراق کو محفوظ کر دیا گیا، یہی وجہ ہے کہ ملکی اور غیر ملکی ریسرچ کرنے والے لوگ یہاں آتے ہیں، مفتی اشفاق قاضی کہتے ہیں کہ یہاں کی پہلی جانکاری انھیں برٹش لائبریری سے حاصل ہوئی اور اسی وجہ یہ بہت متاثر ہوئے اور قوم کے اس اثاثے کو جسے اپنے پاس ہونا چاہئے تھا وہ دوسروں کے پاس ہے اس فکر نے انھیں اس اثاثے کو جمع کرنے پر مجبور کر دیا، مفتی اشفاق اور انکی ٹیم نے اس کتب خانے کے لیے محنت کر کے ساڑھے دس لاکھ کاغذات کو اسکین کیا اور اسکی فہرست مکمل کی۔
ہاتھوں سے لکھے اس قرآن مجید کے نسخے کو کتب خانے کے داخلی دروازے پر ہی رکھا گیا ہے تاکہ ہر آنے جانے والے کو یہ پتا چل سکے کی صدیوں پرانے وہ بھی ہاتھ سے لکھی عبارتیں کتنی کامل اور صاف ستھری ہیں، جو موجودہ وقت میں صرف کمپیوٹر سے لکھی جا سکتی ہیں اور صرف دنیا کی اس واحد کتب خانے میں ہی موجود ہیں۔
جامع مسجد کے اس کتب خانے کی اگلی کوشش یہ ہے کی ان کتابوں میں اہم کتابیں کون سی ہیں انھیں پھر سے شائع کیا جائے تاکہ ملکی اور غیر ملکی عوام اور علم کے خواہشمندوں کو اس سے فیض حاصل ہو، جس کا تصور اس مسجد اور مسجد کے نگہبانوں نے اس وقت کیا تھا، جب حصول علم کے لیے لوگ دور دراز ملکوں کا سفر کیا کرتے تھے۔