رامپور میں معروف مؤرخ شوکت علی خان ایڈووکیٹ نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت میں چورا چوری سانحہ کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ یہ کانگریس اور مہاتما گاندھی کی عدم تعاون تحریک اور مولانا محمد علی جوہر کی خلافت تحریک کا ردعمل تھا۔'
تحریک آزادی میں چورا چوری سانحہ کو نہیں بھلایا جا سکتا: شوکت علی - مسلم تعلیمی اداروں میں اس بات کا فقدان
تحریک آزادی کی تاریخ سے چوری چورا کے سانحہ کو نہیں بھلایا جا سکتا ہے۔ خلافت تحریک اور چوری چورا کے درمیان کیا تعلق ہے یہ جاننے کے لیے ہم نے ریاست اترپردیش کے رامپور میں معروف مؤرخ شوکت علی خان ایڈووکیٹ سے خصوصی بات چیت۔ انہوں نے تحریک آزادی ہند کی تاریخ کے حوالے سے چوری چورا سانحہ پر تفصیلی روشنی ڈالی۔
انہوں نے کہاکہ گاندھی جی نے عدم تعاون تحریک کا اعلان کر دیا تھا جس میں خلافت تحریک بھی شامل تھی۔ گورکھپور کے چوری چورا علاقہ میں 4 فروری 1922 کو عوام نے انگریزی حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ جس پر پولیس نے گولی چلا دی تھی اور تین شہری ہلاک ہو گئے تھے۔ یہاں یہ بات بھی یاد رہنی چاہیے کہ عدم تعاون کی قیادت بھگوان اہیر اور خلافت تحریک کے ناظر علی نے ڈھائی ہزار کے اس مجمع کو حلف دلا دیا تھا کہ ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے اور پیٹھ نہیں دکھائیں گے۔ تین شہریوں کے ہلاک ہونے کے بعد مشتعل بھیڑ نے تھانہ چورا چوری کو نذرآتش کر دیا تھا جس میں 22 پولیس اہلکار زندہ جل کر ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے بعد انگریزی حکومت نے اپنی کارروائی کو انجام دیتے 225 افراد کے خلاف مقدمہ دائر کیا، 19 لوگوں کو پھانسی کی سزا اور دیگر کو عمر قید سنائی۔
شوکت علی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ بعد میں چوری چورا کے مقام پر شہید اسمارک بنایا گیا ہے جو ہندو مسلمان قومی یکجہتی کی مثال ہے۔
ساتھ ہی اس موقع پر انہوں نے ہمارے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے یہ بتایا کہ مسلم تعلیمی اداروں میں اس بات کا فقدان پایا جاتا ہے کہ وہاں ملت کے مجاہدین آزادی سے متعلق نصاب پڑھایا جائے۔'