ریاست اُتر پردیش میں 24 نومبر سے نافذ ہوئے لو جہاد قانون کے بعد 29 نومبر کو بریلی میں اس قانون کے تحت پہلا معاملہ درج ہوا اور اس کے بعد مختلف اضلاع میں اب تک درجنوں معاملے درج ہو چکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس طرح کے تمام معاملوں میں لڑکا مسلم اور لڑکی ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والی رہی ہیں اور زیادہ تر معاملوں میں اس قانون کے تحت ایف آئی آر ہندو مذہبی تنظیموں کی جانب سے پولیس پر دباؤ بنا کر درج کرائی گئی ہے۔
لو جہاد اور مذہب تبدیلی معاملوں میں ہندو تنظیموں کی مداخلت
اترپردیش میں لو جہاد کے نام پر جبراً مذہب تبدیلی کے خلاف لائے گئے قانون کے تحت درج ہونے والے معاملوں میں تیزی آئی ہے۔ قانون کے ماہرین اور سماجی ملّی تنظیموں کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ ہندو تنظیموں کی جانب سے غیر ضروری مداخلت اور پولیس پر دباؤ بنایا جا رہا ہے، جس سے لوگوں کو کافی پریشانی کا سامنا ہے۔
گذشتہ روز میرٹھ کے نوچندی تھانے میں درج کیا گیا معاملہ اسی کی ایک مثال ہے۔ اس سے قبل میرٹھ کے ہی ایک معاملے میں شادی شدہ جوڑے اور لِیو ان تعلقات میں ساتھ رہ رہے بالغ جوڑے کو بجرنگ دل جیسی ہندو تنظیموں سے جان کا خطرہ ہونے پر پولیس سے حفاظت کی گہار لگانی پڑی اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ قانون کے ماہرین مانتے ہیں کہ لو جہاد کی بنیاد پر لائے گئے اس قانون کا سہارا لیکر اب اس طرح کے جوڑوں کو نشانہ بنانے کی شروعات ہو چکی ہے، جو سماج میں مذہبی منافرت کو اور بڑھانے کا کام کریگی۔
صوبہ اتر پردیش میں جس طرح لو جہاد اور مذہب تبدیلی قانون کا سہارا لیکر ہندو تنظیموں کے دباؤ میں پولیس کی کارروائی سے دونوں مذاہب کے پیچ کھائی پیدا ہوئی ہے ضرورت اس طرح کے قانون کا سہارا لیکر منافرت پیدا کرنے والی تنظیموں پر لگام لگانے کی تاکہ ملک سے نفرت کے ماحول کو ختم کیا جا سکے۔