حضرت شاہ پیر مقبرے کے تاریخی اہمیت کو دیکھتے ہوئے بھارت کے محکمہ آثارقدیمہ نے 1972 میں مقبرے کی تحفظ کی ذمہ داری لی ہے۔ لیکن آج بھی یہ مقبرہ جرجر حالت میں ہے مقبرے کی عمارت فن تعمیر کی بہترین شاہکار ہیں۔
اس کی دیواروں میں سنگ مرمر کو بہترین انداز میں پرویا گیا ہے۔ دیوار میں لگے پتھر بہت ہی خوبصورت انداز میں تراشے گئے ہیں جو آج بھی عمارت کی خوبصورتی کی جھلک پیش کر رہے ہیں، لیکن دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے اس کے دیواروں کی حالت خستہ ہو چکی ہے۔
سید احمد علی اکبر کے سجادہ نشین سید احمد علی کا کہنا ہے کی محکمہ آثار قدیمہ کے افسران اسے مندر میں بدلنے کی دھمکی بھی دے رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی پیش رفت نہیں کی جار ہی ہے۔ عمارت کے جذب ہونے کی وجہ سے کئی سارے پتھر عمارت سے نیچے آ رہے ہیں۔ چونکی مزار پر لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے، ایسے میں حادثات ہونے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔
واضح رہے کہ محکمہ آثار قدیمہ نے مقبرے گیٹ پر ہدایت نامہ چسپا کیا ہے جس پر واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ 100 سے 200 میٹر کی دوری تک کوئی بھی مکان تعمیر نہیں ہو سکتا ہے۔ سرعام اس کی قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ سجادہ نشین کا الزام ہے کہ جب بھی اس طرح کی بات سامنے آتی ہے تو محکمہ آثارقدیمہ کے افسران رشوت لے کر کے معاملے کو ختم کر دیتے ہیں۔