مرکزی حکومت کی طرف سے لائے گئے زراعی قوانین کی واپسی کو لے کر مظفرنگر میں منعقد ہوئی کسان مہاپنچایت کے ذریعے کسانوں نے اپنے مطالبات کو لیکر ایک بار پھر حکومت کو اپنی طاقت کا احساس کرانے کے ساتھ مغربی یوپی میں 2013 سے پہلے کے ماحول کو بحال کرکے جاٹ مسلم کے درمیان سماجی یکجہتی کی ڈور کو پھر سے مضبوط کرنے کی ایک کوشش بھی نظر آتی ہے۔
مظفر نگر شانتی مشن اور اُس کے بعد کسان آندولن سے وابستہ رہے سماجی کارکن اور سیاسی تجزیہ کار مانتے ہیں کہ 2013 کے مظفر نگر شاملی فرقہ وارانہ فسادات کے بعد دو فرقوں کے لوگوں کے درمیان پیدا ہوئی کھائی اور نفرت کے ماحول کو ختم کرنے کی کوششیں پہلے بھی کی جاتی رہی ہیں لیکن اس مہا پنچایت میں ایک ہی منچ سے اللہ اکبر اور ہر ہر مہادیو کے نعرے لگاکر ٹکیت لیڈران نے جہاں علاقے کی کسان برادری کے لیے آپسی یکجہتی کا پیغام دیا ہے، وہیں آنے والے وقت میں کسان آندولن کو اور تیز کرنے کا بھی اعلان کیا ہے، ساتھ ہی اس پیغام کے سیاسی معنی بھی نکالے جارہے ہیں۔