کیرالہ یونین آف ورکنگ جرنلسٹس (کے یو ڈبلیو جے) نے کیرالہ کے رپورٹر صدیق کپن کی نظربندی کو چیلینج کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں درخواست دی ہے اور اترپردیش حکومت کے الزام کی بھی تردید کی ہے جس میں اترپردیش حکومت نے صدیق کپن پر الزام لگایا ہے کہ وہ پی ایف آئی کا حصہ ہیں اور ہاتھرس میں بدامنی پھیلانے کے مقصد سے وہاں جا رہے تھے۔
یونین نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ صحافی کپن کو "حراست کے دوران تین بار پیٹا گیا اور اسے ذہنی اذیت کا نشانہ بنایا گیا"۔
عدالت عظمیٰ میں دائر جوابی حلف نامے میں کے یو ڈبلیو جے نے دعویٰ کیا ہے کہ اتر پردیش پولیس نے ایک "بالکل جھوٹا اور غلط بیان" دیا ہے کہ کپن پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) کے دفتر سکریٹری ہیں کیونکہ وہ ایک صحافی کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔''
ملزم صدیق کپن نے خصوصی طور پر وکیل سے درخواست کی کہ وہ عدالت سے یہ درخواست کریں کہ وہ اسے نارکو تجزیہ ٹیسٹ یا برین میپنگ ٹیسٹ یا جھوٹ پکڑنے والے ٹیسٹ یا کسی دوسرے سائنسی ٹیسٹ سے گزرنے کی اجازت دیں تاکہ وہ ثابت کر سکیں کہ وہ بے گناہ ہیں۔
جوابی حلف نامہ اترپردیش حکومت کے ذریعہ سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل داخل کرنے کے بعد دیا گیا جس میں اترپردیش حکومت کے ذریعہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ صدیق کپن ذات پات کی تفریق اور امن و امان کی صورتحال کو خراب کرنے کے لئے ایک "صحافت کے لبادے" میں ہاتھرس جا رہے تھے۔
ریاست نے اپنے حلف نامے میں یہ الزام لگایا ہے کہ صدیق کپن پی ایف آئی کے آفس سیکرٹری ہیں اور وہ ایک کیرالہ سے تعلق رکھنے والے اخبار کا شناختی کارڈ دکھا کر کام کر رہے تھے جو سنہ 2018 میں ہی بند ہوچکا ہے۔
عدالت عظمیٰ نے کے یو ڈبلیو جے کی درخواست پر سماعت کی ہے جس میں صدیق کپن کی گرفتاری پر سوال اٹھائے ہیں اور ان کی ضمانت پر رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
اپنے حلف نامے میں کے یو ڈبلیو جے نے الزام لگایا ہے کہ ریاست نے "گمراہ کن حلف نامہ دائر کیا ہے، جس میں حقائق کو غلط بیان کرتے ہوئے ان کی غیر قانونی نظربندی اور بدنیتی پر مبنی قانونی کارروائی کا جواز پیش کیا ہے" اور ان کے خلاف الزامات کی حمایت کرنے کے لئے کوئی مواد موجود نہیں ہے۔