تمل ناڈو کے تمام شہروں میں مدورائی نے روایتی چیزوں کے ساتھ اپنی خاص شناخت بنالی ہے۔ جگر ٹھنڈا کا نام بھی اب اس سے جڑ گیا ہے۔ شمال سے اس کی شروعات ہوئی اور یہ مدورائی کا نہیں ہے۔ اس کے باوجود مندروں کے اس شہر میں یہ شاہی مشروب بن گیا ہے۔ اس کا ذائقہ یہاں رہنے والے لوگوں کو بہت پسند ہے۔ یہاں سے سفر کرنے والے لوگ اس کے بہت شوقین ہیں اور اس مشروب کو اپنے ساتھ لے جانا کبھی نہیں بھولتے ہیں۔ جگر ٹھنڈا کے روایتی ذائقے کے لئے مقامی باشندے شہر کی مشہور دکانوں پر پہنچتے ہیں۔
مقامی خاتون گیتا نے بتایا کہ ''میں مدورائی کے گنپتی نگر کے وِلا پورم سے آئی ہوں۔ یہ میرا پسندیدہ مشروب ہے۔ جب بھی شہر آتی ہوں تو میں جگرٹھنڈا پیتی ہوں۔ شہر چھوڑنے سے پہلے میں اسے کبھی نہیں بھولتی ہوں۔''
جگرٹھنڈا کے نام کے متعلق بات کریں تو یہ لفظ اردو سے لیا گیا ہے۔ جس کا مطلب کلیجے کو ٹھنڈک پہنچانے والا ہوتا ہے۔
دہلی کے بادشاہ علاؤدین خلجی کے سپاہ سالار مَلِک کپور نے سب سے پہلے 1311 ء میں تمل ناڈو پر حملہ کیا۔ اس کے بعد محمد بن تغلق نے 1318 ء میں مدورائی پر حملہ کیا اور اپنے گورنر کے حوالے کردیا، جس نے خود کو 1335 میں مدورائی کا سلطان ہونے کا اعلان کر دیا۔ ان سلطان بادشاہوں کے ذریعے روایتی جگر ٹھنڈا شہر میں پہنچا۔
سلطان کی سلطنت کے سالوں بعد نائک نے اس کا تختہ پلٹ دیا اور نائک سلطنت کی بنیاد ڈالی لیکن جگر ٹھنڈا کی ڈیمانڈ میں کمی نہیں ہوئی۔ اس مشروب میں دودھ کی کریم کو روغن بادام کے ساتھ ملاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جگرٹھنڈا تیار کرنے کے لئے نائک کے محل میں خصوصی شیف کو تقرر کیا گیا تھا۔