لکھنؤ میں نوابی طور طریقے میں تانگہ شاہی سواری کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اودھ کے نوابوں کو تانگہ کی سواری پسند تھی- یہی وجہ ہے کہ تاریخ کے ابواب و تصاویر میں لکھنؤ کی تاریخی عمارتوں کے احاطے میں تانگہ ضرور نظر آتا ہے۔ بالی ووڈ فلموں میں بھی لکھنؤ کے تانگہ کو دکھایا گیا ہے۔ لیکن موجودہ دور میں یہ شاہی سواری اپنے وجود پر شکوہ کناں ہیں۔
بڑا امام باڑہ، رومی دروازہ، شاہ نجف، پکچر گیلری اور ریسیڈینسی سمیت متعدد تاریخی عمارتوں کی سیر کے لیے تانگہ کی سواری قدیم زمانے سے مقبول رہی ہے۔ لیکن موجودہ دور میں اس کی تعداد میں اچانک کمی سے تشویش ہے۔
گزشتہ 50 برس سے تانگہ چلانے والے اچھے میاں کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن اور کورونا وائرس و مہنگائی کی وجہ سے گھوڑوں کی پرورش اور ان کی دیکھ ریکھ مشکل ہوگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لاک ڈاؤن سے قبل جہاں اس علاقے میں 30 سے 35 تانگہ ہوا کرتے تھے وہیں اب دوسرے لوگ ڈاؤن کے بعد ایک درجن سے بھی کم تانگے بچے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ زیادہ تر تانگہ چلانے والے افراد اب ای رکشا کی جانب مائل ہوئے ہیں۔ وہیں جہاں قدیم زمانے میں تانگہ اسٹینڈ اور اس کے کاریگر ہوا کرتے تھے وہ بھی اب دوسرے روزگار سے وابستہ ہوگئے۔ رفتہ رفتہ یہ شاہی سواری لکھنؤ سے ناپید ہوجائے گی ایسے آثار نظر آرہے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ نئی نسل کا رجحان اب ای رکشا کی جانب زیادہ ہے۔ کیونکہ گھوڑوں کی دیکھ ریکھ ان کی پرورش اور ان کا خرچ برداشت کرنا مشکل ہورہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تانگوں کی تعداد میں کمی واقع ہورہی ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے سیاح مینو اڈانی نے کہا کہ ہم دوسرے ملکوں میں جاتے ہیں۔ وہاں کے میوزیم، تاریخی عمارت اور قدیم سواریوں کی جانب مائل ہوتے ہیں۔ اور اسے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں قدیم طور طریقے نوابی انداز، شاہی سواری آج بھی موجود ہے۔ ضرورت ہے کہ ہم ان طور طریقوں اور تہذیب و ثقافت کو فروغ دیں، اپنے بچوں کو سکھائیں تاکہ نہ صرف سیاحوں کے لئے دلچسپی کا سامان رہے بلکہ لکھنؤ کی تہذیب و تمدن بھی زندہ رہے۔