بہوجن سماج پارٹی کے 7 اراکین اسمبلی نے بدھ کو پارٹی امیدوار سے اپنی حمایت واپس لینے کا اعلان کردیا۔بی ایس پی امیدوار کے خلاف بغاوت کرنے والے پانچوں اراکین اسمبلی اسلم علی، اسلم رائنی، مجتبی صدیق، حاکم لال بند، ہرگووند بھارگو، سشما پٹیل اور وندنا سنگھ ہیں۔ خبر ہے کہ ان اراکین نے سماج وادی سربراہ اکھلیش یادو سے منگل کی رات ملاقات کی تھی۔
اب سماج وادی پارٹی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار پرکاش بجاج کے جیتنے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔اگر بی ایس پی امیدوار7 بی ایس پی اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو ایسی صورت میں آزاد امیدوا بلا مقابلہ دیگر 9 امیدواروں کے ساتھ راجیہ سبھا پہنچ جائیں گے۔
لیکن وہیں دوسری جانب آزاد امیدوار پرکاش بجاج کے پرچہ نامزدگی بھی دستاویزات کی جانچ کے دوران منسوخ ہوسکتی ہے۔ان کے پرچے میں درج نام میں کچھ خامی کا پتہ چلا ہے۔لیکن کس کا پرچہ نامزدگی خارج ہوگا آیا بی ایس پی امیدوار کا یا آزاد امیدوار کا اس کی صحیح تصویر دستاویزات کی جانچ کے بعد واضح ہوگی۔
راجیہ سبھا کے لئے امیدواروں کے نام واپسی کی آخری تاریخ 2 نومبر ہے جبکہ ووٹنگ 9 نومبر کو صبح 9 بجے سے شام 4 بجے تک ہوگی۔جبکہ اسی دن شام 5 بجے سے ووٹوں کی کاونٹنگ ہوگی۔اور تنائج کا اعلان کیا جائے گا۔
تاہم اب راجیہ سبھا کے لئے 11 امیدواروں کے میدان میں ہونے سے یوپی کا سیاسی پارہ گرم ہوگیا ہے۔اگر وکیل پرکاش بجاج نے آخری اوقات میں اپنا پرچہ داخل نہ کیا ہوتا تو تمام امیدوار،8 بی جے پی کے اور ایک ،ایک ایس پی و بی ایس پی سے بلامقابلہ راجیہ سبھا کے لئے منتخب ہوجاتے ۔
اب 11 امیدواروں کے انتخابی میدان میں ہونے سے بی ایس پی کو 18 اراکین اسمبلی کے ساتھ اپنے امیدوار کی جیت کے لئے مزید ووٹوں کی ضرورت ہوگی اور یہ ووٹ این ڈی اے کے زائد بچے 17ووٹوں کے ذریعہ آسکتے ہیں۔
بی جے پی کے 8 امیدواروں کو ہی میدان میں اتارنے سے لکھنؤ میں یہ چہ میگوئیاں کافی زوروں پر ہیں کہ پارٹی ایک سیٹ مایاوتی کے لئے چھوڑی ہے۔بصورت دیگر کچھ کوششوں کے ذریعہ پارٹی اپنا ایک مزید امیدوار راجیہ سبھا کو بھیجنے میں کامیاب ہوسکتی تھی جیسا کہ اس نے اس سے پہلے 2018 کے انتخابات بی ایس پی امیدوار کو شکست دیتے ہوئے اپنے 9ویں امیدوار کی جیت کو یقینی بنایا تھا۔
راجیہ سبھا کے لئے بی ایس پی اور بی جے پی کے اس مبینہ اندرونی سمجھوتے اور بی جے پی کے تئیں مایاوتی کے نرم رویہ نے اس سوال کو کھڑا کردیا ہے کہ آیادونوں پارٹیاں 2022 کے اسمبلی انتخابات کی زمین تیار کررہی ہیں۔