شہریت ترمیمی قانون کے خلاف لکھنؤ کے تاریخی گھنٹہ گھر پر گذشتہ 13 دنوں سے احتجاج جاری ہے۔
آج بابائے قوم کی برسی کے موقع پر مظاہرین نے دو منٹ خاموش رہ کر اور کینڈل مارچ نکال کر مہاتما گاندھی کو خراج عقیدت پیش کیا۔
واضح رہے کہ گھنٹہ گھر پر سی اے اے کے خلاف مظاہرے میں شامل مرد وخواتین، سماجی کارکنان اور وکلاء کی کثیر تعداد نے جمع ہوکر پہلے باپو کی یاد میں دو منٹ تک کی خاموشی اختیار کی اور پھر کینڈل مارچ نکالا۔
گھنٹہ گھر کے علاوہ دارالحکومت کے گومتی نگر کے اجریاؤں میں بھی مظاہرین نے بابائے قوم کو یاد کیا اور مشعل جلوس نکالا۔
احتجاج میں پورے ملک سے معروف شخصیات یومیہ کی بنیاد پر شرکت کررہی ہیں اور اس کالے قانون کے منفیات پر روشنی ڈالتے ہوئے اس ضمن میں احتجاج کو جاری رکھنے کی وکالت کررہی ہیں۔
احتجاج کو بلاتفریق مذہب وملت ہر شعبہ ہائے حیات کے شخصیات، ہر ذات و طبقے کے مرد و زن کی حمایت حاصل ہے۔اور وہ احتجاج میں شرکت کرکے سی اے اے کے خلاف اپنا احتجاج درج کرارہے ہیں۔
احتجاج کے چودھویں دن آج سابق گورنر عزیر قریشی نے گھنٹہ گھر اور اجریاؤں پہنچ کر تحریک کاروں کی حمایت کی۔
مسٹر قریشی نے جائے احتجاج پر پہنچ کر اپنے مختصر سے خطاب میں بابائے قوم کی برسی پر انہیں یاد کرتے ہوئےکہا کہ' 30 جنوری کو ہی باپو کو گولیوں سے ہلاک کردیا گیا تھا۔اور ان کو گولی مارنے والے افراد وہی تھے جو بالکل بھی نہیں چاہتے تھے کہ ملک میں سیکولرزم قائم ہو، وہ قطعی نہیں چاہتے تھے کہ ملک میں اپوزیشن کی آواز ہو۔
انہوں نے کہا کہ ملک عزیز میں صدیوں سے بلاتفریق مذہب وملت ہر طبقے کے لوگ مل جل کررہ ہے ہیں۔لیکن موجودہ حکومت چاہتی ہے کہ اب ان کے درمیان تفریق پیداکی جائے۔
انہوں نے کہا کہ مسلمان سینکڑوں برس سے اس ملک میں رہ رہے ہیں۔ انہوں نے ملک کی فلاح و بہبود کے لئے بے شمار کارہائے نمایاں انجام دئیے ہیں جو جگ ظاہر ہے۔لیکن موجود حکومت اپنی تفریق کاری ذہنیت کی بنیادی پر کچھ کالے قوانین کو لاکرمسلمانوں کا نشانہ بنا رہی ہے۔
سابق گورنر نے تحریک کاروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی چیز سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ جو کرہے ہیں وہ ملکی مفاد میں ہے اور آپ کی جدوجہد ہندستانی تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھاجائےگا۔ مسٹر قریشی نے کہا کہ میں ہمہ وقت آپ کے ساتھ ہوں اور اگر ضرورت پڑی تو ہر جگہ میں صف اول میں ملوں گا۔
قابل ذکر ہے کہ اترپردیش میں گذشتہ دونوں سی اے اے کے خلاف ہونے والے احتجاج کے دوران تشدد پھوٹ پڑا تھا جس میں تقریبا 23 افراد کی جانیں گئی تھیں اور سینکڑوں زخمی ہوگئے تھے بعد میں پولیس کی دبش اور بڑے پیمانے پر نوجوانوں کی گرفتاری کے بعد خوف کی لہر سی دوڑ گئی تھی۔
بعد اذاں یو پی میں کانپور سے ایک بار پھر پرامن احتجاج کی آواز اٹھی اور اب لکھنؤ کا گھنٹہ گھر یوپی میں سی اے اے کے خلاف تحریک کا مرکز بن گیا ہے۔ اس وقت یوپی میں پریاگ راج، اجریاوں،مرادآباد وغیرہ میں خواتین پرامن احتجاج کررہی ہیں۔ ان احتجاجات میں خواتین اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے مختلف قسم کے نقش ونگاری کے ذریعہ اپنا احتجاج درج کرارہی ہیں۔
احتجاج میں شرکت کرنے والی خواتین کے ہاتھوں میں پلے کارڈ بنیرس ہوتے ہیں تو چہرے پر ترنگا کے پینٹنگ۔بینروں پر انقلاب زندہ باد،نو سی اے اے،نو این آر سی،نو این پی آر کے نعرے آویزاں ہوتے ہیں تو زباں پر حب الوطنی کے گیت رواں ہوتے ہیں۔
مزید پڑھیں: خواتین کے احتجاج کو سابق گورنر عزیز قریشی کی حمایت
ریاست میں شروع ہونے والے احتجاج کو ختم کرانے کے لئے ریاستی حکومت ہر ممکن حربہ اپنا رہی ہے۔ریاستی حکومت کی جانب سے لکھنؤ کے گھنٹہ گھر اور اجریاؤں کے تحریک کاروں کے خلاف ابھی تک 6 ایف آئی آر درج کی جاچکی ہیں لیکن باوجود اس کے تحریک کاروں کے حوصلوں میں کوئی کمی نہیں آرہی ہے۔