اترپردیش کے دارلحکومت لکھنؤ میں منشی نول کشور 'شخصیت اور خدمات' عنوان پر انسٹیٹیوٹ فار سوشل ہارمونی اینڈ اپلفٹمنٹ کے زیر اہتمام سیمینار منعقد کیا گیا۔منشی نول کشور پر مقالہ پیش کرتے ہوئے بتایا گیا کہ منشی نول کشور کے پریس سے ایک طرف جہاں اردو زبان کی تمام کتابیں شائع ہوتی تھیں، وہیں اسلامی تعلیمات کی کتابیں بھی شائع ہوتی تھی۔ان کے پریس میں اردو، عربی اور فارسی کی 65 فیصد کتابیں شائع ہوتی جبکہ 35 فیصد میں ہندی، بنگلہ، سنسکرت وغیرہ زبانوں کی کتابیں شائع ہوتی تھی۔
منشی جی نے اردو زبان کی ترقی و تحفظ کے لئے اہم رول ادا کیا۔ قابل ذکر ہے کہ ان کے پہلے بھی کئی پریس قائم کیے گئے تھے اور بعد میں بھی لیکن جو مقبولیت منشی نول کشور کے پریس کو ملی وہ کسی دوسرے کو حاصل نہ ہو پائی۔ سیمینار میں مہمان خصوصی منشی نول کشور کے پوتے پدم شری رنجیت بھارگو نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت کے دوران بتایا کہ منشی جی کا پریس 90 سال تک قائم رہا اور سن 1950 میں اسے بند کرنا پڑا۔