معروف شاعر منور رانا نے سخت انداز میں کہا کہ ہم آئی آئی ٹی کو قطعی اس کی اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ شاعری کا فیصلہ کرے۔ آئی آئی ٹی ایک لاکھ سائنٹسٹ پیدا کر سکتی ہے، لیکن وہ ایک لاکھ سائنٹسٹ مل کر بھی رامائن نہیں لکھ سکتے۔ جب رامائن لکھنا ہوگا تو ایک کوی اٹھے گا، ایک شاعر اٹھے گا، اس کا نام آچاریہ تلسی داس ہوگا۔
فیض کی نظم کے حوالے سے منور رانا نے کہا کہ انھوں نے یہ نظم ضیاءالحق کے زمانے میں کہی تھی۔ اور یہ نظم بہت زمانے سے لوگ استعمال کرتے آرہے ہیں۔ خصوصا نکڑ ناٹک والے رت جگے کے طور پر استعمال کرتے تھے، کہیں کارخانوں میں مزدور کی حمایت میں یہ نظم گائی گئی۔ یہ نظم انقلاب کے لیے پڑھی جاتی رہی ہے۔ جب انسان بھوکا ہوتا ہے تو وہ رومانی نظم یا 'بہاروں پھول برساؤ' جیسے گیت نہیں گنگناتا۔ ایسی نظمیں گاتا ہے جو انقلاب پیدا کرے۔
منور رانا نے کہا کہ بھارت کی موجودہ صورتحال پر اب شاعری اور آستھا شامل کی جانے لگی ہے کہ اس کا فیصلہ اب عدالتیں اور آئی آئی ٹی کریں گی۔ حالانکہ اس کی ضرورت نہیں ہے لیکن سیاست جو سوچتی ہے وہ مذہب کا تڑکا ضرور لگاتی ہے۔
شاعری کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ شاعری میں جو کہا جاتا ہے اس کا مطلب وہ بالکل نہیں ہوتا، خاص طور سے اردو شاعری میں۔ انھوں نے مثال دیتے ہوئے بتایا کہ اگر آپ اپنی محبوبہ سے ہندی میں یہ کہتے ہیں کہ تم ہتھیارَن لگ رہی ہو تو وہ آپ کو گھر سے نکال دے گی۔ اگر آپ انگریزی میں کہتے ہیں کہ تم آج بالکل مرڈرر (Murderer) لگ رہی ہو تو وہ آپ سے آئندہ نہ ملنے کی قسم کھا لے گی۔ لیکن اگر آپ اس سے کہیں گے آج تو تم قاتل لگ رہی ہو تو وہ بولے گی چائے پییں گے اور کیسے ہیں آپ۔