مولانا مدنی نے کہا کہ ہندوستان کی خارجہ پالیسی ہمیشہ سے غیر جانب داری اور انصاف پر مبنی رہی ہے، اس طرح کی یک طرفہ کارروائی ہماری پالیسی اور روایت کے بالکل خلاف ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت ہند نے حمایت کا جو طریقہ اختیار کیا ہے، اس سے اسلام دشمنی اور مسلمانوں سے نفرت عیاں ہو تی ہے جس سے نہ صرف ملک کے 20 کروڑ مسلمانوں بلکہ سارے عالم کے مسلمانوں اور سیکولر افراد کی دل آزاری ہوتی ہے۔
حکومت ہند کے فرانسیسی صدر کی غیر معقول حمایت پر جمعیۃ علماء ہند کا رد عمل
ترکی کے ذریعہ فرانسیسی صدر کی مبینہ توہین اور نازیبا الفاظ کے استعمال سے متعلق حکومت ہند کے تنقیدی بیانیہ پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود دمدنی نے دعوی کہ ہمیں حیرت ہے کہ حکومت ہند نے فرانسیسی صدر کی ’توہین‘ پر اپنے دکھ اور ہمدردی کا اظہار تو کیا لیکن خود فرانسیسی صدر کے قابل مذمت اور غیر مناسب عمل کو یکسر نظر انداز کردیا۔
مولانا مدنی نے مزید کہا کہ بھارت کا ’سیکولرزم‘ کسی بھی مذہب یا مذہبی پیشوا کی توہین کی ہرگز اجازت نہیں دیتا بلکہ تمام مذاہب اور ان کے پیشواؤں کا یکساں احترام ہمارے سیکولرزم اور بھارتیہ سنسکرتی کا لازمی جز ہے۔ یہ ایک آئینی حقیقت ہے کہ ہماراسیکولرزم، فرانس کے سیکولرزم سے بالکل مختلف ہے جس کی بنیاد مذہب سے بیزاری پر ہے۔
جہاں تک دہشت گردی اور دہشت گردانہ حملو ں کا تعلق ہے تو جب 2015ء میں فرانس پر دہشت گردانہ حملہ ہوا تھا تو بھارت کے مسلمانوں بالخصوص جمعیۃ علماء ہند نے پورے ملک میں اس کے خلاف احتجاج کیا تھا، جمعےۃ علماء ہند ہر طرح کی دہشت گردی کی مخالفت کرتی رہی ہے، چاہے وہ کسی ریاست کی طرف سے ہو یا کسی فرد یا تنظیم کی طرف سے۔ لیکن آج فرانس خود انتہا پسندی اور دہشت گردی کو فروغ دے رہاہے۔اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہماری حمایت اور مخالفت میں توازن قائم ہو۔