ندوۃالعلماء کے اساتذہ مولانا سید سلمان حسینی ندوی نے کہا کہ "عدالت عظمیٰ نے جو فیصلہ سنایا ہے ہمیں وہ قابل قبول ہے، یہی سماج اور ملک کے حق میں بہتر ہے۔
'نظرثانی کی عرضی قوم کے ساتھ دھوکہ' - مولانا سید سلمان حسینی ندوی
ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت کے دوران مولانا سید سلمان حسینی ندوی نے کہا کہ 'ایودھیا معاملے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نظرثانی کی عرضی داخل کرنا قوم کو اور خود کو مغالطے میں ڈالنے جیسا ہے، اس سے کسی کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہونے والا'۔
ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت کے دوران انھوں نے کہا کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ ہو یا جمعیۃالعلماء یہ دونوں ہی تنظیمیں مسلسل بیان بازی کر رہی تھی کہ عدالت عظمیٰ کا جو بھی فیصلہ آئے گا، وہ ہمارے حق میں ہو یا ہمارے خلاف، ہمیں ہر حال میں قابل قبول ہوگا، لیکن اب جبکہ فیصلہ آچکا ہے اور مسجد بننے کے کوئی امکانات نہیں ہیں تب ریویو پیٹیشن کی بات کہنا مناسب نہیں۔
مولانا مسلمان حسینی ندوی سے گفتگو کے اہم نکات
1۔ فیصلے کے قبل مسلم پرسنل لا اور جمیت علماء نے بار بار کہا تھا کہ کورٹ کا فیصلہ جو بھی ہو گا وہ ہمیں قابل قبول ہوگا۔
2۔ میں نے یہ کوشش کی تھی کہ اس مسئلہ کو آپسی بات چیت کے ذریعے کورٹ کے باہر حل کرنا سب سے مناسب ہے لیکن یہ نہیں ہو پایا۔
3۔ بھارت میں رہنے والے سبھی انسان ایک ہی اللہ کی اولاد ہیں، لہذا ہم سب بھائی بھائی ہوئے۔
4۔ ہمارا شروع سے ہی یہ ماننا رہا کہ مسجد کو وہاں سے منتقل کر دیا جائے۔ اس کی شریعت اجازت دیتی ہے۔
5۔ یہ بات درست ہے کہ ہم کسی بھی مسجد کی زمین کو بت خانے کے لیے نہیں دے سکتے۔
6۔ 1949 میں مسجد میں مورتی رکھی گئی، 1986 میں پوجا کے لیے کھول دی گئی اور 1992 میں مسجد کو شہید کر دیا گیا یہ تمام باتیں سچ ہیں۔
7۔ میں نے جو تجویز پیش کی تھی اس کے مطابق ہی سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا۔
8۔ اگر ہمارے حق میں بھی فیصلہ آتا تب بھی وہاں پر ہم مسجد کسی بھی حال میں تعمیر نہیں کرسکتے تھے۔
9۔ جو لوگ مایوسی کی بات کر رہے ہیں وہ خود کو اور مسلم قوم کو مغالطے میں ڈال رہے ہیں۔ انھیں بھی معلوم ہے کہ ریویو پٹیشن سے کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران مولانا سلمان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو آخری مان کر ہمیں ایودھیا میں مسجد کیلئے زمین لے کر وہاں سے اسلام کی تعلیمات کو پوری دنیا میں پھیلانے کی ضرورت ہے۔
TAGGED:
مولانا سید سلمان حسینی ندوی