اس سلسلے میں ای ٹی وی بھارت نے ریاستی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین شکیل احمد ببلو سے خاص بات چیت کیا اور اقلیتوں کے خلاف ہونے والے تعصب، ظلم و زیادتی پر مختلف سوالات کیے۔
شکیل احمد ببلو نے اپنے خاص انٹرویو میں کہا جب وہ کمیشن کے چیئرمین ہوا کرتے تھے تو ریاست کے اقلیتی طبقہ خود کو محفوظ سمجھتا تھا اور ہزاروں ایسے مقدمات تھے جس میں اقلیتی طبقہ کو دانستہ طور پر مجرم بنایا گیا تھا جس کی اقلیتی کمیشن نے پیروی کر کے نوجوانوں کو رہا کرانے کا کام کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں پولیس کی زیادتی میں اقلیتی طبقہ پر بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے جس کے خلاف نہ ہی اقلیتی کمیشن آواز بلند کر رہا ہے اور نہ ہی حکمران طبقہ اس کی جانب کوئی توجہ دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کا اقلیتی طبقہ خوفزدہ ہے اور اپنی بلند کرنے کی جسارت نہیں کر رہا ہے۔
انہوں نے اپنے خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ موجودہ حکومت نہ صرف عام اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کر رہی ہیں بلکہ ریاست کے جو اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والے قد آور رہنما ہیں ان کے بھی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے۔
انہوں نے سماجوادی پارٹی کے سینئر رہنما اعظم خان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت اقلیتی طبقہ کے بڑے رہنماؤں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج رہی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ ایک عام اقلیتی کو کس قدر مشکلات کا سامنا ہوگا۔
انہوں نے اپنے انٹرویو میں ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ دنوں میں الہ آباد ہائی کورٹ نے تشویش کا اظہار کیا تھا کہ اقلیتی طبقہ کے خلاف گوکشی کے قوانین بے جا استعمال کیے جا رہے ہیں، جس پر انہوں نے کہا کہ جب وہ کمیشن کے چیئرمین تھے اس وقت بھی گوکشی الزامات میں سیکڑوں اقلیتی طبقہ کے افراد پر مقدمات قائم ہوئے تھے، جس پر کمیشن نے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مقدمات کی پیروی کر کے ہزاروں بے گناہوں کو بری کرآیا تھا لیکن حالیہ دنوں میں اس سے بھی بدتر حالات ہیں لیکن اس کے خلاف آواز بلند کرنے والا کوئی بھی نہیں ہے۔
تین طلاق قانون پر انہوں نے کہا کہ مذہب اسلام میں خواتین کی تمام تر حقوق و اختیارات محفوظ ہیں مزید حکومت کو قوانین بنانے کی ضرورت نہیں تھی۔ بیوہ، تین طلاق یافتہ خواتین کو پانچ سو روپے حکومت دے رہی ہے جو نہ صرف صرف ان خواتین کی توہین ہے بلکہ اقلیتی طبقہ کے خواتین کو حقوق دلانے کے نام پر بدترین مذاق ہے۔ی