اترپردیش میں واقع الہ آباد یونیورسٹی کی وائس چانسلر نے ایک خط ضلع انتظامیہ کو لکھا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ 'فجر کی اذان سے ان کی نیند میں خلل پیدا ہوتا ہے'۔
اذان پر اعتراض کی مذمت کرتے ہیں اس خط کے جواب میں لکھنؤ شہر قاضی مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے کہا کہ 'بھارت گنگا جمنی تہذیب کا گہوارہ ہے، یہاں پر اس طرح کے بیان کی ہم مذمت کرتے ہیں'۔
مولانا خالد رشید فرنگی نے بیان میں کہا کہ ہم الہ آباد یونیورسٹی کی وائس چانسلر پروفیسر سنگیتا سریواستو کے بیان کی مذمت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کے علم میں یہ بات ہونی چاہیے اور ان کو ملک کی تاریخ سے واقفیت ہونی چاہیے کیونکہ بھارت گنگا جمنا تہذیب کے لیے جانا جاتا ہے۔
بھارت گنگا جمنی تہذیب کا گہوارہ ہے، اس لیے یہاں پر اس طرح کے بیان کی ہم مذمت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ ہمارے سماج میں سبھی ایک دوسرے کے مذہب کا عزت و احترام کرتے ہیں۔ یہاں مساجد سے اذان اور مندروں سے کیرتن کی فضا گونجتی رہتی ہے لیکن کسی نے نیند میں خلل ہونے کی بات نہیں کی۔ لہٰذا اس طرح کی باتیں کرنا بے معنی ہے۔
مولانا خالد رشید فرنگی نے بتایا کہ ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق پہلے سے ہی سبھی مساجد میں لاؤڈسپیکر کی آواز کا خیال رکھا جا رہا ہے۔ لہذا سبھی سے یہی اپیل ہے کہ ہم اور آپ اپنے اپنے مذہب پر صحیح طور پر عمل کرتے ہوئے ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کا مکمل احترام کریں نہ کہ بلا وجہ کی باتوں سے عوام کو الجھائیں۔
خیال رہے کہ الہ آباد یونیورسٹی کی وائس چانسلر پروفیسر سنگیتا سریواستو نے پریاگ راج کے ایس ایس پی، ڈی ایم اور ڈی آئی جی کو ایک خط لکھا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ 'فجر کی اذان سے میری نیند میں خلل پیدا ہوتا ہے، لہذا اس پر کاروائی کو یقینی بنایا جائے'۔