یو پی اسمبلی کے انتخابات نزدیک آتے ہی یہاں مذہبی منافرت کی کوششیں تیز ہونے لگی ہیں۔ بارہ بنکی ضلع میں جس طرح سے ایک خاص طبقہ کے مذہبی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اسے دیکھتے کر ایسا ہی محسوس ہونے لگا ہے کہ انتخابات سے قبل مذہبی پولرائزیشن کی کوشش تیز ہوگئی ہیں۔ یہاں کے خواجہ غریب نواز مسجد کے بعد اب ایک اور مسجد و تعلیمی ادارہ سرخیوں میں ہے، جسے منہدم کرنے اور فرقہ واریت کو فروغ دینے کی پوری کوشش کی گئی۔
دراصل بارہ بنکی ہیڈ کوارٹر سے تقریباً 40 کلومیٹر دور کرسی۔ محمود آباد روڈ پر واقع کتلی کلا گاؤں کی مسجد اور مدرسے کو رواں برس 31 مارچ کو ایس ڈی ایم فتح پور کے دفتر سے ایک نوٹس جاری کی گئی۔ جس میں الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ کے اس فیصلے کا حوالہ دیا گیا جس کے مطابق اگر کوئی عبادت گاہ جو عوامی مقامات، شاہراہ پر واقع ہو اور اس کی تعمیر سنہ 2011 سے قبل ہوتو اسے وہاں سے ہٹایا جائے اور اگر وہ عبادت گاہ سنہ 2011 کے بعد تعمیر کی گئی ہو تو اسے منہدم کیاجائے۔'
ایس ٹی ایم فتح پور نے اسی حکم نامے کا حوالہ دیتے ہوئے مذہبی عبادت گاہ و دینی تعلیمی ادارے کو ہٹانے کا حکم دیا۔ مزید ایک ہفتے کے درمیان جواب بھی طلب کیا گیا تھا۔ ای ٹی وی بھارت کے ساتھ خصوصی بات چیت میں مسجد و تعلیمی ادارے کے ذمہ داران نے کہا کہ' مذکورہ نوٹس پر پانچ اپریل کو دستی اور بعد میں بذریعہ ڈاک جواب بھی دیا جا چکا ہے۔
نوٹس کے جواب کے بعد سب کچھ ٹھیک مانا جا رہا تھا۔ تاہم اس کے بعد تحصیلدار فتح پور کی جانب سے 31 مئی کو جاری کی گئی نوٹس سے کتلی کلا کی مسجد اور مدرسہ دوبارہ سرخیوں میں آگئی۔ یہ نوٹس علاقائی بی جے پی رکن اسمبلی ساکیندر ورما کی اس شکایت پر جاری کی گئی، جس میں انہوں نے مدرسے کو غیر قانونی بتاتے ہوئے وزیر اعلی سے کاروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ شکایت میں انہوں نے مدرسے کو منہدم کیے جانے کی بھی گزارش کی تھی۔ اس نوٹس پر بھی ایک ہفتے کے درمیان جواب طلب کیا گیا تھا۔ جس کا جواب بھی دیا جا چکا ہے۔