ریاست اترپردیش کے شہر رامپور میں مقامی ملی رہنماؤں اور علماء کو پولیس کی جانب سے نوٹس ملنے کے بعد علماء کا ایک وفد متحدہ طور پر کلکٹریٹ پہنچا جہاں انہوں نے ضلع کلکٹر آنجنے کمار سنگھ سے ملاقات کی۔
علماء نے نوٹس کے متعلق ضلع مجسٹریٹ سے بات چیت کی اور گذشتہ برس 21 دسمبر سنہ 2019 کو ہوئے این آر سی اور سی اے اے کے خلاف مظاہرے اور مظاہرہ کے دوران رونما ہونے والے تشدد کے متعلق عوام کی گرفتاریاں اور پولیس کی جانب سے علما کو ہراساں کیے جانے سے متعلق بات رکھتے ہوئے گزارش کی کہ اب اس چیپٹر کو بند کردینا چاہیے۔
علما کے وفد کی ضلع مجسٹریٹ سے ملاقات واضح رہے کہ تقریباً سوا برس کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن رامپور میں 21 دسمبر 2019 کو سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ اور اس میں رونما ہونے والے تشدد کا درد رامپور کے عوام سے ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔
مقامی لوگوں اور علما کا خیال ہے کہ یہ واقعہ کسی نہ کسی شکل میں سامنے آکر لوگوں کی دشواریوں میں اضافہ کر رہا ہے۔
دراصل 21 دسمبر 2019 کو رامپور کے علما اور ملی رہنماؤں کی جانب سے شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف عید گاہ کے میدان میں جلسہ عام منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
علما کے وفد کی ضلع مجسٹریٹ سے ملاقات واضح رہے کہ علما نے بڑے پیمانے پر عوام سے اس میں شامل ہونے کی اپیل بھی کی تھی لیکن عین وقت پر انتظامیہ کی جانب سے اس جلسہ پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ تاہم عوام اور علما کے درمیان فوری رابطہ نہ ہونے کے سبب ہزاروں کی تعداد میں عوام جب عید گاہ کی جانب بڑھنا شروع ہوئی تو پولیس نے مختلف چوراہوں پر بیریکیڈنگ کر کے عوام کو روکا۔
اس کے بعد ہاتھی خانہ کے چوراہا پولیس اور عوام کے درمیان نوک جھوک ہوئی اور تشدد رونما ہو گیا، جس میں فیض نامی ایک نوجوان کی گولی لگنے سے موقع پر ہی موت ہوگئی۔
جب حالات معمول کی جانب بڑھنا شروع ہوئے تو اس کے بعد پولیس نے اپنی کارروائی کو انجام دیتے ہوئے 116 نامزد اور ایک ہزار سے زائد نامعلوم افراد کے خلاف دو مقدمات درج کیے اور پھر اس وقت سے لے کر اب تک رامپور میں مسلسل گرفتاریوں اور ضمانتوں کا سلسلہ جاری ہے۔
اب مزید اس میں یہ ہوا ہے کہ رامپور کے سات معروف علما کرام کے خلاف بھی پولیس نے 160 سی آر پی سی کا نوٹس جاری کیا ہے۔
اسی ضمن میں علما کے ایک وفد نے ضلع مجسٹریت آنجنے کمار سنگھ سے ملاقات کی اور اس بات کی درخواست کی ہے کہ اس معاملے کو اب مزید طول نہ دیا جائے اور اس طرح کے نوٹس بھیج کر ہراساں نہ کیا جائے۔
اب دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ ضلع انتظامیہ کی جانب سے اس معاملے میں کیا پیش رفت کی جاتی ہے۔