کیرن: کپوارہ کے کیرن سیکٹر میں لائن آف کنٹرول پر ایک پہاڑی کے کونے میں واقع ایک چھوٹی سی اگلی چوکی سرحد پار سے ہونے والی در اندازی کے خلاف دفاع کی پہلی لائن ہے۔ بارہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع یہ چوکی فوجی جوانوں کے مختصر مگر تمام تر ساز وسامان سے لیس ایک چھوٹے گروپ کا مسکن ہے جو شب و روز دراندازی پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ فوج کا کہنا ہے کہ موسم سرما کے قریب آنے کے پیش نظر سرحد پار سے در اندازی کی کوششیں ہوسکتی ہیں۔ India Pakistan Ceasefire
کپوارہ میں ایک فوجی افسر نے یو این آئی کو بتایا کہ موسم خزاں کے اختتام کے ساتھ ہی در اندازی کی کوششوں میں اضافہ درج ہونے کا امکان ہے۔ انہوں نے کہا 'ہم ایل او سی پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں کیونکہ جموں وکشمیر میں ملی ٹنسی کے حوالے سے پاکستان کے ارادوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔کیرن سیکٹر اور اس کا متصل مژھل سیکٹر ماضی قریب تک سر حد پار سے عسکریت پسندوں کی در اندازی کے لئے کافی مشہور تھے اور یہیں سے در اندازی کے تمام راستے بلند قامت شمسا باری رینج میں ملتے تھے اور پھر شمالی کشمیر کے بارہمولہ، سوپور اور بانڈی پورہ تک پہنچتے تھے۔
فوج دراندازی کی کوششوں کو کافی حد تک کم کرنے میں کامیاب ہوئی ہے با وجویکہ جموں و کشمیر میں 743 کلو میٹر طویل ایل او سی، جو بلند قامت چوٹیوں، ناہموار پہاڑیوں، گھنے جنگلوں یہاں تک کہ ندیوں سے گذرتی ہے، سے در اندازی کو مکمل طور پر کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان سرحدوں پر جنگ بندی معاہدے پر عمل در آمد کے باوجود ایل او سی پر تعینات فوجی جوان برابر مسعتد اور چاک و چوبند ہیں۔ Borders on High Alert
کیرن میں اگلی چوکی پر تعینات ایک فوجی جوان نے بتایا: 'ہمیں دن رات کڑی نگرانی رکھنی ہے تاکہ سر حد پار سے کوئی بھی ایل او سی کو پار نہ کر سکے‘۔ انہوں نے کہا ’گرچہ جنگ بندی معاہدہ ہوا ہے لیکن ہم پھر بھی انتہائی مستعد ہیں کیونکہ عسکریت پسندوں نے در اندازی کرکے کشمیر میں داخل ہونے کے ارادے ترک نہیں کئے ہیں‘۔ فوج کا کہنا ہے کہ وادی میں قیام امن کو یقینی بنانے کے لئے وہ کشمیر کے 350 کلو میٹر سرحد پر چوکنا ہیں۔