گاؤں میں محض ایک پرائمری اسکول تھا، سنہ 2014 کے تباہ کن سیلاب کے بعد سے اس عمارت کوغیر محفوظ قرار دیا گیا۔
لیکن حیران کن طور سے اس عمارت کی مرمت یا نئی عمارت تعمیر کرنے کے بجائے محکمہ نے اس اسکول میں زیر تعلیم کمسن اور معصوم بچوں کو تین کلومیٹر دور دوسرے اسکول میں منتقل کیا۔ اب پانچ برسوں سے گاؤں کے کم عمر بچے مجبوراً دوسرے گاؤں جاتے ہیں۔
بچوں کو اینٹ کے بٹھوں اور گھنے درختوں کے بیچ میں سے گزر کر اسکول جانا پڑتا ہے جو ان کے لیے خطرے سے خالی نہیں ہے۔
کیوں کہ اس علاقے میں کتے، خار پشت وغیرہ موجود رہتے ہیں۔
جبکہ پٹھوں میں کتوں کے جھنڈ کبھی بھی حملہ آور ہو سکتے ہیں، اس سب سے بچوں کے والدین بے حد پریشان ہیں۔
مقامی لوگوں کے مطابق محکمہ نے گاؤں میں اسکول کو بند کیا ساتھ ہی بچوں کی زندگیوں کو بھی خطرہ میں ڈالا ہے۔
ادھر متعلقہ محکمہ کے چیف ایجوکیشن افسر نسیم الغنی نے بچوں کو درپیش مشکلات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اس سکول کو دوسرے اسکول میں عارضی طور ضم کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسکول کھل جاتے ہی بچے اسی اسکول میں پریئر کا اہتمام کریں گے اور اسکول کی مرمت کی جائے گی۔ بعد میں اسکول کو دوبارہ کھولا جائے گا۔