مغربی بنگال اسمبلی انتخابات کے تشہیری مہم کے دوران بی جے پی رہنماؤں کی جانب سے مسلسل مسلم مخالف بیانات سامنے آرہے ہیں۔ اس طرح کے بیانات مقصدہ مسلمانوں کو خوفزدہ کرنا ہوتا ہے تو وہیں دوسری جانب اس طرح کے بیانات کا مقصد اکثر و بیشتر سیاسی مفاد ہوتا ہے۔
اتر پردیش میں بی جے پی کی حکومت میں وزیر سوروپ شکلا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ برقعہ غیر انسانی رسم ہے۔ اذان پر اعتراض کرنے بعد سوروپ شکلا کے برقعے کے خلاف محاذ آرائی پر مسلمانوں کی طرف سے رد عمل سامنے آرہے ہیں۔ شکلا کے مطابق تین طلاق کی طرح مسلم خواتین کو برقعے سے بھی آزادی دلائیں گے۔
سوروپ شکلا کے اس بیان پر کولکاتا کے مسلم رہنماؤں کی طرف سے سخت رد عمل سامنے آرہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مذہبی منافرت پر مبنی بیانات کا مقصد کہیں نہ کہیں مغربی بنگال میں جاری اسمبلی انتخابات کو متاثر کرنا اور پولرائزیشن کرنا ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی رکن عظمی عالم نے اس سلسلے میں ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہاکہ بی جے پی رہنماؤں کی جانب مذہبی منافرت پر مبنی اکثر ایسے بیانات سامنے آ تے ہیں۔ کبھی اذان پر پابندی تو کبھی مسلم خواتین کے برقعہ پہننے پر اعتراضات کیے جاتے ہیں۔ اصل میں ان بیانات کا مقصد سیاسی مفاد ہوتا ہے۔ بی جے پی کے پاس مسلمانوں کے علاوہ کوئی موضوع نہیں ہیں۔ مسلم خواتین جو برقعہ پہنتی ہیں ان پر کوئی مسلط نہیں کیا جاتا ہے وہ اپنی مرضی سے پہنتی ہیں۔ جو پڑھے لکھے ہیں وہ بی جے پی کے سودہ بازیوں سے اچھی طرح واقف ہیں ان کی باتوں میں آنے والے نہیں ہیں۔'
جماعت اسلامی کے ریاستی صدر مولانا عبدالرفیق نے کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ برقعہ ایسا لباس ہیں جو بہت چیزوں سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ کورونا کے دوران ہر مذہب کے ماننے والی خواتین اپنے پورے جسم ڈھک کر نکل رہی تھیں۔ دوسری جانب مسلم خواتین نے کبھی شکایت نہیں کی برقعے کی وجہ ہمیں نمائش کرنے میں پریشانی ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم معاشرے میں پردے کی پابندی کی وجہ سے ہی دوسرے معاشروں کے بنسبت زنا بالجبر جیسے واقعات کم رونما ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے غیر مناسب بیانات ہمیشہ سے بی جے پی کی طرف سے آتے رہتے ہیں۔'
آئی ایس ایف کے رہنما اور انٹالی اسمبلی حلقہ کے امیدوار محمد اقبال عالم نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے اس سلسلے میں کہا کہ ہر کسی کو آزادی ہے کہ وہ کیا پہنے کیا کھائے کس مذہب کی پیروی کرے۔ اس طرح کے بیانات اصل میں صرف پولرائزیشن کرنے کی کوشش ہے۔ لیکن بنگال میں مختلف مذاہب کے لوگ برسوں سے ساتھ مل کر رہتے ہیں۔ ان باتوں سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے۔ بنگال کے لوگ ثقافتی طور پر ایک ہیں۔ ہم ایک دوسرے کے تہواروں میں شریک ہوتے ہیں۔ بنگال میں دنگا فساد کرانے والے کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔'