ریاست مغربی بنگال کے دارالحکومت کولکاتا میں وزیراعلی ممتابنرجی نے کہا کہ ریاست میں منعقد ہونے والے آئندہ اسمبلی انتخابات کے پیش نظر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور کل ہند مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) نے سمجھوتے کے انتخابات لڑنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان سیٹز کی تقسیم ہوچکی ہے اور اکثریت کی بنیاد پر امیدواروں کو انتخابی میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ بی جے پی نے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کو بنگال میں لانے کے لیے اب تک کروڑوں روپے خرچ کرچکی ہے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ بی جے پی نے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کو بنگال میں لانے کے لیے اب تک کروڑوں روپے خرچ کرچکی ہے انہوں نے کہا کہ بی جے پی جس طرح دوسری ریاستوں میں ووٹ حاصل کرتے آئی ہے اسی طریقے کے تحت بنگال میں بھی لوگوں کی توجہ منتشر کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔
وہیں دوسری طرف انہوں نے کہا کہ اے آئی ایم آئی ایم اقلیتی اکثریتی اضلاع میں امیدواروں کو انتخابی میدان میں اتارنے کی سازش کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'دونوں سیاسی جماعتوں کا ایک ہی مقصد ہے کسی بھی قیمت پر ووٹز کی تقسیم کرنا ہے لیکن ہم بھی خاموش بیٹھنے والے نہیں ہیں'۔
ممتا کی بی جے پی اور اے آئی ایم آئی ایم پر نکتہ چینی انہوں نے کہا کہ بی جے پی اور اے آئی ایم آئی ایم کے کھیل بگاڑنے کے لیے ہم اپنی پوری طاقت جھونک دیں گے کیونکہ ہمارے پاس عوام کی حمایت ہے اس بنیاد پر جیت حاصل کرسکتے ہیں۔
وزیراعلیٰ ممتابنرجی نے کہا کہ بی جے پی ایک مقصد کے تحت حیدرآباد کی سیاسی جماعت کو مغربی بنگال میں لانے کی کوشش کررہی ہے۔
انہوں نے بنگال کے عوام سے انہیں ان کے مقصد کو حاصل کرنے سے روکنے کی اپیل کی ہے اس کے لیے تمام مذاہب کے لوگوں کو متحد ہونے کی اپیل کی۔
واضح رہے کہ مغربی بنگال میں اقلیتی ووٹز کی تعداد 30 فیصد ہے جو کل 294 اسمبلی سیٹز میں سے 110 سے 128 سیٹز میں فیصلوں کا رخ بدل سکتے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر حیدرآباد کی سیاسی جماعت بنگال کی سیاست میں قدم رکھتی ہے تو اس راست اثر اقلیتی ووٹز پر پڑے گا۔