کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ملک گیر سطح پر لا ک ڈاؤن نافذ ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے تقریباً سبھی معاشی سرگرمیاں بند پڑے تھے لیکن مرکزی حکومت نے اس میں نرمی اپنا تے ہوئے چنندہ سیکٹرز کو مشروط اجازت دی ہے کہ وہ اپنے معاشی سرگرمیاں دوبارہ سے شروع کرسکتے ہیں، ان میں جوٹ مل بھی شامل ہے۔
اس سلسلے میں مرکزی حکومت کی جانب سے ریاستی حکومت کو خط لکھ کر جوٹ ملوں کو کھولنے کی اپیل بھی کی گئی تھی جس پر وزیراعلی ممتا بنرجی نے ریاست کے تمام جوٹ ملوں کو محدود ورک فورس کے ساتھ کھولنے کی اجازت دی ہے۔
تاہم فیکٹری کے گیٹ پر وہی پرا نا نوٹس لگا ہوا ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے مل کو بند کیا جا رہا ہے۔ 20 اپریل سے تمام جوٹ ملوں کو 15 فیصد ورک فورس کے ساتھ کھولنے کی بات تھی لیکن اس ہدایت کے باوجود مل بند ہیں۔
مزدوروں کا کہنا ہے کہ' مل پر تالا دیکھ کر وہ لوگ مایوس ہیں، کیونکہ ان کے پاس کوئی کام نہیں ہے اور نہ ہی گھر چلانے کے لیے روپے ہے، ان کے لیے گھر کا خرچ اٹھانا مشکل ہو رہا ہے۔
مزدوروں کا کہنا ہے کہ' مل کھلنے کے خبر سے کچھ امید نظر آئی تھی لیکن آج بھی مل نہیں کھلا جبکہ مرکزی اور ریاستی حکومت نے جوٹ ملوں کو 15 فیصد ورک فورس کے ساتھ کھولنے کی اجازت دے دی ہے۔ اگر محدود طور پر بھی مل چلے تو کم از کم ہمیں ہفتے میں دو دن کام مل سکتا ہے۔ وہیں کچھ مزدوروں کا کہنا تھا کہ مل مالکان کو مزدوروں کو کچھ ایڈوانس دینا چاہیے کیونکہ ہمارے گھروں میں اب کچھ نہیں ہے۔آمدنی کا کوئی دوسرا ذریعہ بھی نہیں ہے۔'
واضح رہے کہ بنگال میں ہگلی ندی کے کنارے بڑی تعداد میں جوٹ مل ہیں جن میں بڑی تعداد میں بہار اور یوپی سے تعلق رکھنے والے افراد کام کرتے ہیں۔ اندازے کے مطابق ایک جوٹ مل میں تقریباً چار سے پانچ ہزار افراد کام کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ جوٹ ملیں ہگلی اور شمالی 24 پرگنہ میں ہیں۔ مل نہ کھلنے پر مزدوروں میں ناراضگی بھی ہے ان کا کہنا ہے کہ اس کے پیچھے مالکان اور مزدور یونین کی ملی بھگت بھی شامل ہے۔'