ریاست مغربی بنگال میں جوٹ ملوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے جس کی وجہ سے بنگال میں پٹسن کی پیدوار بہت زیادہ ہوتی ہے، آزادی سے قبل بنگال کے دریائے ہگلی کے کنارے متعدد جوٹ مل قائم کئے گئے تھے۔ آج بھی ان جوٹ ملوں میں لاکھوں مزدور برسر روزگار ہیں، جوٹ ملوں میں جوٹ تھیلے تیار کیے جاتے ہیں، جوٹ کے تھیلوں کا استعمال اناج کے بوریوں کے طور پر ہوتا ہے۔
مغربی بنگال جوٹ مل کے مزدوروں پر کام کا دباؤ برقرار مغربی بنگال بڑے پیمانے پر پٹسن کی پیداوار ہوتی ہے اور پٹسن کے پودوں سے نکلنے والے سنہرے رنگ کے ریشوں سے دھاگہ تیار کیا جاتا ہے اور پھر ان سے جوٹ کے تھیلوں کے علاوہ متعدد چیزیں تیار کی جاتی ہیں، جوٹ کے ان تھیلوں کا سب سے بڑا خریدار فوڈ کارپوریشن آف انڈیا ہے۔
جوٹ کی ان تھیلوں کو بنگال کے ہگلی ندی کنارے قائم جوٹ ملوں میں مزدوروں کی محنت سے تیار کی جاتی ہے لیکن ان جوٹ ملوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی حالت آج بھی ناگفتہ بہ ہے۔
ہگلی ندی کے کنارے ہگلی ضلع کے تیلنی پاڑہ میں کئی جوٹ مل ہیں جن میں سب سے قدیم اور سب سے بڑا جوٹ مل وکٹوریہ جوٹ مل ہے جس کا قیام آزادی سے قبل ہوا تھا۔ مل کی اطراف کی آبادی کا اسی جوٹ مل پر انحصار ہے لیکن جوٹ مل میں کام کرنے والے مزدوروں کی حالت آج بھی جوں کی توں ہیں۔
ہگلی کے تیلنی پاڑہ وکٹوریہ جوٹ مل کے مزدوروں سے ای ٹی وی بھارت نے جوٹ مل میں کام کرنے والے مزدوروں کی حالت پر بات کی۔
وکٹوریہ جوٹ مل کے ایک مزدور محمد اورنگ زیب نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے بعد سے مل کھلنے سے مزدوروں کو تھوڑی راحت ضرور ملی ہے لیکن مالکان کا مزدوروں کے سات وہی روایتی رویہ برقرار ہے، ہر دن نئے نئے اصول قواعد متعارف کرائے جاتے ہیں، مزدوروں پر زیادہ پیداوار کا دباؤ رہتا ہے، محنت کے عوض جو مزدوری دی جاتی ہے وہ ناکافی ہے، مرکزی حکومت کی جانب سے کوئی مدد نہیں کی جاتی ہے، نئے نئے مشین لائے جا رہے ہیں جس کے لیے نئے لوگوں کو رکھا جا رہا ہے لیکن ان کو بہت کم عزرت دی جا رہی ہے۔
دوسرے مزدور نے بتایا کہ ہم لوگ پرانے ہو چکے ہیں اسی لیے ہمیں کام تو ملتا ہے لیکن پیدوار کے لیے دباؤ رہتا ہے، ایک مزدور دو دو مشین چلاتے ہیں لیکن نئے لوگوں کی عزت بھی کم ہے اور کام بھی کم ملتا ہے، کمپنی نے نیا چینی مشین لگایا ہے، ایک مزدور کو چھ چھ مشین چلانا پڑے گا، مزدوروں پر روز بروز اس طرح کی زیادتی کی جا رہی ہے، مل میں کام کرنے والے مزدوروں کی پریشانیاں کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔
مل میں مزدوروں کے حق کی آواز اٹھانے والی یونینوں کا زیادہ تر جھکاؤ مالکان کی طرف ہوتا ہے، مزدوروں کے بجائے بسا اوقات مل مالکان کے حق میں کام کرتے ہیں، ان یونین کے رہنماؤں سے مزدور بدظن ہو چکے ہیں۔