اردو ادب میں کہانیوں اور افسانوں کی تاریخ بہت پرانی ہے، لیکن جدید دور میں ادب کے کئی اصناف نے دم توڑ دیا تو کچھ دم توڑرہی ہیں لیکن غزل اور نثری ادب میں افسانے کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ آج بھی افسانے لکھنے اور پڑھنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ بلکہ اب جدید دور میں نئی ٹکنالوجی کا بھی استعمال ان اصناف کے فروغ میں ہورہا ہے۔
جدید دور میں بھی افسانے لکھے اور پڑھے جا رہے ہیں: شہیرہ مسرور سوشل میڈیا پر لوگ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کررہے ہیں۔ سوشل میڈیا نے پوری دنیا کو کوزے میں سمیٹ دیا ہے۔ اب کوئی بھی تخلیق بآسانی پوری دنیا تک پہنچ رہی ہے۔ اس کے علاوہ بھی رسالے اور جرائد آج بھی تخلیقی ادب کے لئے اہم ہیں۔
موجودہ دور میں افسانے لکھنے اور پڑھنے کے رجحان کے متعلق ای ٹی وی بھارت نے مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والی معروف افسانہ نگار شہیرہ مسرور سے خاص بات چیت کی۔ انہوں نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ جدید دور میں بھی جب لوگوں کے پاس وقت کم ہے لیکن ابھی لوگ بڑی تعداد لکھ رہے ہیں اور پڑھ رہے ہیں۔ رسائل اور جرائد میں اگر افسانے شائع نہ ہو تو وہ گم ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف چلی جاتی ہیں لیکن لوگ لکھ رہے ہیں بلکہ اردو ادب سے تعلق رکھنے والے ہی نہیں بلکہ وہ لوگ بھی لکھ رہے ہیں جن اردو ادب کے شعبے سے تعلق نہیں ہے۔
مغربی بنگال اردو اکاڈمی نے شام افسانہ کا سلسلہ شروع کیا ہے جس میں افسانہ نگاروں کو مدعو کیا جاتا ہے اور وہ راست اپنے افسانے سناتے ہیں۔ اس طرح کی محفلوں کے متعلق انہوں نے کہا کہ ایسی محفلوں کا انعقاد ہونا چاہئے اس طرح کی محفلوں میں جب لوگ افسانے سنتے ہیں تو نئے لکھنے والوں کو ترغیب ملتی ہے جس سے انہیں آگے بڑھنے کا موقع ملتا ہے۔ مغربی بنگال اردو اکاڈمی کی جانب سے سال میں کئی بار شام افسانہ کا انعقاد کیا جاتا ہے اور کئی بار نئے لکھنے والوں کو بھی موقع دیا جاتا ہے۔ اس طرح کی محفلیں اردو ادب کے فروغ میں کارگر ثابت ہوتی ہیں۔