ممتا بنرجی نے کہا کہ اگر بائیں محاذ بی جے پی کی مدد کرنے کے بجائے اپنی سیٹیں جیتنے پر توجہ دیتے تو آج نتائج کچھ اور ہوتے ۔انہوں نے کہا کہ ہم بنگال اسمبلی میں اپوزیشن کے پنج پر بی جے پی کے بجائے سی پی ایم کو دیکھنا چاہتی تھی ۔ وزیر اعلی نے کہا کہ بی جے پی کی حمایت کرنے میں ان میں زیادہ ہی جوش و خروش تھا ۔انہیں اس کے بارے میں سوچنا ہوگا ۔
آزادی کے بعد یہ پہلا موقع ہےکہ 294 نشستوں والی بنگال اسمبلی میں بائیں بازو یا کانگریس کا کوئی ممبر نہیں ہے۔اب ان کی جگہ بی جے پی نے لے لی ہے ۔خیال رہے کہ بی جے پی نے 77 اور ترنمول کانگریس نے 213 سیٹوں پر جیت حاصل کی ہے۔
بائیں بازوں کے لیڈران مسلم جماعت عباس صدیقی کے ساتھ اتحاد کو نقصان دہ قرار دے رہے ہیں ۔بنگال میں بی جے پی کے جیت کے امکانات کی وجہ سے مالدہ ، مرشدآباد اور شمالی دیناج پور جیسے اضلاع جہاں کانگریس کی پکڑ تھی میں مسلمانوں نے ترنمول کانگریس کوو وٹ دیا۔
بائیں بازوں کے لیڈروںنے دعویٰ کیاکہ بی جے پی مخالف ووٹ ترنمول کانگریس کے ارد گرد مستحکم ہوگا ۔عوام یہ سمجھنے لگی کہ بی جے پی کو صر ف ممتا بنرجی ہی ہراسکتی ہے ۔میڈیا میں بھی ممتا بنرجی بنام مودی کئے جانے کا فائدہ بھی ممتا بنرجی کو ہوا ہے ۔
آر ایس پی لیڈر منوج بھٹا چاریہ نے عباس صدیقی کے ساتھ اتحاد کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے ۔مگر ایک آمر نے دو سرے آمر پر فتح حاصل کرلیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ کانگریس کے ساتھ اتحاد کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے ۔کیرالہ میں مخالفت اور بنگال میں اتحاد پارٹی کے ورکروں کو راس نہیںآیا۔دوسرے یہ کہ بائیں محاذ کے 34سالہ حکمرانی کے دور میں کانگریس زمینی سطح پر اپنی حقیقت کھودی تپی ۰
کانگریس نے ممتا بنرجی کو بی جے پی کو شکست دینے پر مبارکباد دی ہے۔ راہل گاندھی نے ٹویٹ کیا کہ میں نے ممتا جی اور مغربی بنگال کے لوگوں کو اچھی طرح سے بی جے پی کو شکست دینے پر مبارکباد دیتے ہوئے خوشی محسوس کررہا ہوں ہوں۔لیکن پارٹی کے ریاستی صدرادھیررنجن چودھری نے کہا کہ ممتا بنرجی کے پولرائزیشن کی وجہ سے مالدہ اور مرشددآباد میں ہمیں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ادھیر چودھری نے کہا کہ مرشد آباد اور مالدہ میں ہندوؤں نے بی جے پی کو ووٹ دیا اور مسلمانوں نے ترنمول کو ووٹ دیا۔ یہ ممتا بنرجی کی مکمل فرقہ وارانہ مہم تھی۔
یو این آئی