کلکتہ یونانی میڈیکل کالج و اسپتال کی بنیاد سنہ 1994 میں رکھی گئی تھی۔2008 میں کالج کی منیجنگ کمیٹی نے کالج کو سرکاری تحویل میں دینے کا فیصلہ کیا تھا۔کیونکہ نجی طور پر کالج کا خرچ اٹھانا مشکل ہو رہا تھا۔
کلکتہ یونانی میڈیکل کالج و ہسپتال حکومت کی بے توجہی کا شکار کولکاتا شہر کا ایک اور ادارہ برسوں سے ریاستی حکومت کی بے توجہی کا شکار ہے۔شہر کے کچھ مسلمانوں نے کولکاتا کے تالتلہ میں ایک یونانی میڈیکل کالج و اسپتال کی بنیاد ڈالی ہے۔سید محمد فیضان احمد کی سربراہی میں 1994 کالج کی بنیاد رکھی گئی تھی۔1998 میں کالج کا کلکتہ یونیورسٹی سے الحاق ہوا۔
کالج میں تعلیمی سلسلہ جاری رہا۔2002 میں کالج کا پہلا بیچ مکمل ہوا۔کالج کا سالانہ خرچ دس سے آٹھ کروڑ ہے۔جس کو نجی طور پر پورا کرنا ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ کئی برسوں سے کالج انتظامیہ اس تگ و دو میں ہے کہ کالج کو ریاستی حکومت اپنے تحویل میں لے تاکہ کالج کی ترقی ہو سکے اس سلسلے میں 2008 سے کوششیں کی جا رہی ہے۔
کلکتہ یونانی میڈیکل کالج و ہسپتال کے پرنسپل ڈاکٹر محمد ایوب قاسمی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ جب 2003-04 میں سنٹرل کونسل آف انڈین میڈیسین نے میڈیکل کالج و اسپتال کے حوالے سے نئے شرائط متعارف کرائے جس کے مطابق بنیادی ڈھانچہ میں کالج اور ہسپتال دونوں 20 ہزار فٹ کے اراضی پر ہونی چاہئے جب کہ ہمارے پاس اتنی اراضی موجود نہیں، کونسل نے اس میں کئی برسوں تک رعایت دی اسی طرح کالج چلتا رہا۔
لیکن 2008 میں ہمارے گورننگ باڈی کے صدر محمد فیضان احمد نے یہ تجویز دی کہ کالج کو اب نجی طور پر چلانا مشکل ہے۔ بلکہ اگر ایسا ہی رہا تو کالج کو چلانا مشکل ہو جائے گا۔جس کے بعد کالج کو بلا شرط سرکار کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اس سلسلے میں حکومت سے رابطہ کیا گیا۔2009 میں ہیلتھ اینڈ فیملی ویلفئر کمیٹی نے کلکتہ یونانی میڈیکل کالج و اسپتال کے اس تجویز پر غور کرتے ہوئے اس سلسلے میں اسٹینڈنگ کمیٹی میں کالج کے حوالے سے بل کو منظوری دے دی۔
سنہ 2010 میں اس وقت کے وزیر صحت سوریہ کانت مشرا نے کلکتہ یونانی میڈیکل کالج و اسپتال بل کو ریادتی اسمبلی میں پیش کیا جسے اکثریتی ووٹوں سے منطوری مل گئی۔ کچھ تکنیکی نقائص کی وجہ سے گورنر نے بل پر دستخط نہیں کیا۔2011 میں ریاستی حکومت تبدیل ہو گئی اور ممتا بنرجی اقتدار میں آ گئ۔
ممتا حکومت نے بھی کالج کو سرکاری تحویل میں لینے کا وعدہ کیا۔لیکن ممتا حکومت کی دوسری معیاد پوری ہونے والی ہے لیکن اب تک کلکتہ یونانی میڈیکل کالج و اسپتال کو سرکاری تحویل میں نہیں لیا گیا۔گذشتہ دس برسوں سے کالج ممتا حکومت کی التفات کی منتطر ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 2010 میں ہی پریسیڈنسی یونیورسٹی بل کو بھی منظوری ملی تھی۔آج پریسیڈنسی یونیورسٹی کا کام ہو گیا جبکہ ہم لوگوں کو آج بھی صرف وعدے پر اکتفا کرنا پڑ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گذشتہ دس برسوں میں وزیر اعلی ممتا بنرجی کو دس سے پندرہ بار خط لکھا گیا لیکن اب تک کوئی جواب نہیں آیا۔وزیر مملکت برائے صحت چندریما بھٹاچاریہ سے کئی بار ملنے پر انہوں نے صاف کہ دیا کہ یہ کام صرف وزیر اعلی ممتا بنرجی ہی کر سکتی ہیں۔
کالج کے پاس نئے شرائط کے مطابق نہ بنیادی ڈھانچہ ہے اور نہ ہی وسائل ہیں ایسے میں اگر حکومت کی طرف سے مدد نہیں ملی تو کالج کو چلانا بہت مشکل ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ممتا بنرجی سے ہمیں امید ہے کہ وہ یہ مسئلہ حل کر دیں گی۔کیونکہ ریاست گذشتہ برسوں میں چار ہومیوپیتھی اور ایک ایورویدک کالج کو اپنے تحویل میں لے چکی ہیں۔ان سے پوچھا گیا کہ بار بار حکومت نے تاخیر کی کوئی وجہ بتائی تو انہوں نے کہا کہ حکومت کے وزراء کی طرف سے کالج کو سرکاری تحویل میں نہ لئے جانے کے لئے ایک مبہم سا بہانہ بتایا جاتا ہے کہ حکومت کے پاس فنڈ نہیں ہے۔یہ نہایت فضول قسم کا بہانہ ہے۔
جبکہ حکومت کئی طرح کے عارضی پروگراموں پر کروڑوں روپئے سالانہ خرچ کر دیتی ہے۔کالج کے تعلق سے یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ حکومت کی طرف سے اس تاخیر کی وجہ ہے کہ کہیں یہ لوگ اقلیتی درجہ کا مطالبہ نہ شروع کر دیں۔جبکہ کالج انتظامیہ کی طرف سے حکومت کو تحریری طور پر یقین دہانی کرائی جا چکی ہے کہ اس طرح کا کوئی مطالبہ نہیں کیا جایے گا اس کے باوجود کالج کے ساتھ یہ ناروا سلوک لوگوں سمجھ سے بالا تر ہے۔
گذشتہ دس برسوں سے ممتا حکومت صرف وعدے پر وعدے کر رہی ہے۔جس کی وجہ سے کلکتہ یونانی میڈیکل کالج و ہسپتال انتظامیہ کے علاوہ اساتذہ، طلبا اور کالج کے عملہ کافی دلبرداشتہ ہیں کیونکہ برسوں سے یہ نہایت ہی معمولی تنخواہ پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ان کو امید ہے کہ سرکاری کالج ہو جانے پر ان کی حالت بہتر ہو جائے گی اور کالج بھی ترقی کرے گا۔کالج کی منیجنگ کمیٹی کی رکن و آفس سیکریٹری نکہت فاطمہ نے بتایا کہ کالج میں ہر بیچ میں 40 طلبا ہر سیمسٹر میں ہیں۔یہاں سے پڑھائی مکمل کر کے وہ ملک کے مختلف ریاستوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔پریکٹس کر رہے ہیں۔
کالج میں بھی او پی ڈی ہے یہاں روزانہ سیکڑوں مریض علاج و معالجہ کے لئے آتے ہیں۔ کالج کے پروفیسر دانش ظفر نے بتایا کہ یونانی طریقہ کار بہت قدیم ہے۔حکمت جس میں قدرتی جڑی بوٹیوں کی مدد سے علاج کی جاتی ہے، جڑی بوٹیوں سے تیار شدہ ادویات کا کوئی مضر اثر نہیں ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں:
انہوں نے کہا کہ کئی برسوں سے ہم اس کالج کے سرکاری تحویل میں لئے جانے کے منتظر ہیں دس برس گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک ہمیں مایوسی ہی ہاتھ آئی ہے۔دس برس ایک لمبا عرصہ ہوتا ہے۔کلکتہ یونانی میڈیکل کالج و اسپتال کے ساتھ ممتا بنرجی کی حکومت کی طرف سے اس بے توجہی کی وجہ سے کولکاتا کے لوگوں میں بھی تشویش پایا جاتا ہے۔کیونکہ ایک اور ملی ادارہ ملی الامین کالج کا معاملے میں بھی ممتا بنرجی کی حکومت کا رویہ افسوسناک رہا ہے۔کالج آج تنازعات کا شکار ہے۔