ریاست مغربی بنگال کے دارالحکومت کولکاتا میں واقع کلکتہ ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران ڈویژن بینچ کے جسٹس نے کہا کہ بالغ کی پسند کی شادی میں کوئی رکاوٹ نہیں بن سکتا ہے۔
کلکتہ ہائی کورٹ نے کہا کہ بالغ کی پسند کی شادی میں کسی کو مداخلت کرنے کی اجازت کیوں دی جاسکتی ہے۔
جسٹس سنجیو بنرجی اور ارجیت بنرجی کی ڈویژن بینچ نے سونا (فرضی نام) کے والد کی عارضی پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ 'قانون میں مداخلت کرنا ایک جرم ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم تمام کو اس کا خیال رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے ورنہ کبھی کبھی بات ہاتھوں سے نکل بھی جاتی ہے'۔
پسند کی شادی میں مداخلت کرنا جرم انہوں نے کہا کہ عرضی گزار نے اپنی عرضی میں گزارش کی کہ ان کی بیٹی نے دوسرے مذہب کے لڑکے سے شادی کی ہے۔ اس لیے دونوں کو الگ کردینا چاہیے۔
عدالت یہ جاننا چاہتی ہے کہ کیا دونوں بالغ ہیں اگر دونوں نابالغ ہیں تو کارروائی کی جائے گی اور اگر بالغ ہیں اور اپنی اپنی مرضی سے شادی کی تو سیکورٹی فراہم کی جائے گی۔
دونوں جسٹس نے کہا کہ بالغ کی اپنی مرضی اور پسند کی شادی میں کسی کو دخل اندازی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
لڑکے اور لڑکی نے ضلع مجسٹریٹ کے سامنے اپنے اپنے بیان ریکارڈ درج کروائے ہیں لیکن عرضی گزار کے وکیل نے کہا کہ ضلع مجسٹریٹ کے سامنے جب بیان درج کرائے جارہے تھے اس وقت میرے مؤکل کو اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ دونوں کے بیان پر شبہ ہے اس لیے سب کے سامنے مجسٹریٹ کی موجودگی میں بیان ریکارڈ درج کرایا جائے۔
سرکاری وکیل کا کہنا ہے کہ بیان ریکارڈ درج کرانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے ایسا کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دونوں بالغ ہیں اور دونوں نے اپنی اپنی مرضی سے شادی کی ہے اس لیے قانون انہیں ایک ساتھ رہنے کی اجازت دیتا ہے۔