پولیس نے پہلے گمشدگی کا معاملہ درج کیا اور بعد میں اسے اغواء کے معاملے میں تبدیل کیا۔ پولیس کی لاپرواہی کے سبب گھر والوں نے آخر میں اغوا کاروں کے مطالبے کے مطابق رقم کا بندوبست کیا۔
بہن نے اپنی شادی کے زیور بیچے، ماں نے اپنے بیٹے کو بچانے کے لئے گھر بیچا، تیس لاکھ روپے کا انتظام کر کے پولیس کو دیا گیا۔ پولیس نے اس معاملے میں اغوا کاروں کے بتائے ہوئے مقام پر رقم کو پہنچایا بھی لیکن پولیس کی تمام کوشش اور تیاری کے باوجود اغواکار روپے لے کر فرار ہونے میں کامیاب رہے۔
پولیس اغوا کاروں کی گرفت سے سنجیت یادو کو رہا نہیں کرا سکی اور نہ ہی کسی اغوا کار کو گرفتار کر پائی۔ گھر والے ایس پی اور پولیس عملے سے بار بار یہ مطالبہ کرتے رہے کہ اس بیگ میں کوئی چپ لگا دیجئے تاکہ اس سے اغوا کاروں کی لوکیشن کا پتہ چل سکے، لیکن ایس پی اور ڈی ایس پی نے اس معاملے میں لاپرواہی برتی، الٹا گھر والوں کو ڈانٹا۔
روپے چلے جانے کے بعد جب سنجیت یادو نہیں رہا تو گھر والوں نے وزیراعلی سے شکایت کی۔ تب جا کر تمام اعلی افسران نے اس معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے تحقیقات کرنا شروع کی جس پر چوکی انچارج اور ایک سپاہی کو لاپرواہی برتنے پر معطل کر دیا گیا۔