انڈین نیشنل لیگ کے قومی صدر نے کہا کہ لکشدیپ دیپ جہاں 97 فیصد مسلمانوں کی آباد ی ہے۔ وہاں ریاست گجرات کے رہنے والے پرفل کمار پٹیل کو ایڈمنسٹریٹر کے عہدے پر فائز کیا گیا ہے۔
لکشدیپ کے ایڈمنسٹریٹر کو ہٹانے کا مطالبہ پر فل کمار پٹیل نے وہاں پر کئی ایسے مجوزہ قوانین کا نفاذ کیا ہے جس سے وہاں کے عوام پریشان ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مجوزہ قوانین کے مطابق بیف کے کھانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ سلاٹر ہاؤس بند کر نے کی ہدایت دی گئی ہے۔
مزید پڑھیں:ایڈمنسٹریٹر پرفل پٹیل کے اقدامات سے لکشدیپ کے مستقبل پر سوالیہ نشان
انہوں نے مزید کہا کہ اب تک لکشدیپ میں شراب پر پابندی تھی۔ مگر اس مجوزہ قوانین کے نفاذ کے بعد وہاں شراب فروخت کرنے کی اجازت ہوگی۔ اس کے علاوہ گجرات کی ایک کمپنی کو لکشدیپ میں دودھ بیچنے کے لیے مختص کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کےعلاوہ دیگر کئی ایسی روایتں،تہذیب و ثقافت ہیں جسے وہاں کے عوام اپنی مرضی کے مطابق اس تہذیب و تمدن پر عمل پیرا تھے ۔تاہم نئے مجوزہ قوانین سے وہاں کا نظام درہم برہم کر دیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے عوام پریشان ہے.
انہوں نے مزید کہا کہ ان سب کے علاوہ ایک مخصوص قانون پاس کیاگیاہے ۔ جس کے مطابق اگر کوئی شخض ایڈمنسٹریٹر کے ان قوانین کے خلاف احتجاج کرے گا تو اس پر ملک مخالف مقدمہ درج کرکے اسے جیل میں ڈال دیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ انہی تمام تر معاملات کے پیش نظر انڈین نیشنل لیگ کے کارکنان نے احتجاج کیا ہے۔ اور جمہوری طریقے سے اس پر اپنی آواز بلند کر ر ہےہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ لکشدیپ کے تمام تجارتی اشیاء ریاست کیرالا سے ہو کر گزرتے تھے۔مگر اب اسے بھی بند کر دیا گیا ہے۔ اب تجارتی سامان لا نے کے لئے ریاست کرناٹک سے ہوکر گذرنا پڑےگا ۔ جس کی مخالفت کیرلا کی صوبائی حکومت نے اپنی اسمبلی میں قانون کی شکل میں پاس کرکے احتجاج کیا ہے.
انہوں نے مزید کہا کہ کیرالہ حکومت میں جہاز رانی کے وزیر کے عہدے پر فائز انڈین نیشنل لیگ کے رہنما نے ان نئے مجوزہ قوانین کی مخالفت کی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ لکشدیپ کے ایڈمنسٹریٹر پرفل کمار پٹیل کا تعلق گجرات سے ہے۔ اور وہ وہاں کے بی جی پی کے سینئر رہنماوں میں سے ایک ہیں ۔ اور اسی لئے ان کا یہ فیصلہ لوگ سیاسی نظریے سے دیکھ رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ جو آر ایس ایس کے نظریے پر گامزن ہے۔ان کے ذریعے کیاگیا یہ فیصلہ کشمیر کے فیصلہ سے بھی جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے۔ کیونکہ دونوں ریاستوں کی آبادی مسلم اکثریت پر مشتمل ہے ۔ اسی لئے اس فیصلہ کو مسلمانوں کو پریشان کرنے والا فیصلہ بتایا جا رہا ہے۔