اردو صحافت کا ایک شاندار ماضی رہا ہے اور بلا شبہ اردو اخبارات صحافت کی آبرو ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان میں مختلف اور مثبت تبدیلیاں بھی آئیں لیکن معیار کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ترقی کی بجائے تنزلی کا احساس ہوتا ہے۔
اس ضمن میں ای ٹی وی بھارت نے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونیکیشن کے ریجنل ڈائریکٹر پروفیسر راکیس کمار گوسوامی سے ردعمل جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا کہ جموں میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونیکیشن کی طرف سے پی جی ڈپلوما انگریزی زبان میں پڑھایا جاتا ہے، جبکہ اردو کورسز کو دہلی میں پڑھایا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ علاقائی زبانوں میں صحافت پڑھائی کی اشد ضرورت ہے، جبکہ زیادہ تر اب انگریزی اور ہندی زبان میں صحافت پڑھائی جاتی ہے۔
راکیس کمار گوسوامی کا ماننا ہے کہ لوگوں کا رجحان انہیں کورسوں کی جانب ہوتا ہے جہاں روزگار کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں، ایسے جب روزگار کے مواقع زیادہ ہو جائیں گے تو لوگوں کا خود بخود رجحان بڑھ جائے گا۔
جموں یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے صدر ڈاکٹر ریاض احمد کا کہنا تھا کہ اردو صحافت کا جہاں تعلق ہیں، اس میں تھوڑی سی گراوٹ آئی ہے، لیکن ابھی بھی اردو صحافت کی اہمیت ہے اور لوگوں کو اچھی امیدیں وابسطہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بد قسمتی سے اردو سیاست کی شکار ہورہی ہے، جبکہ وقت کے ساتھ ساتھ اردو صحافت میں مختلف اور مثبت تبدیلیاں بھی آئیں لیکن معیار کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ترقی کی بجائے تنزلی کا احساس ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اردو اخبارات کی زبان بہت زیادہ خراب ہو گئی ہے۔ نہ کوئی معیار ہے اور نہ کوئی پیمانہ۔ انگریزی الفاظ اور ہندی لہجے کے استعمال کی کثرت سے اہل زبان کا ذائقہ بگڑ رہا ہے۔ یہ بات شدت کے ساتھ یہ محسوس کی جارہی ہے کہ جموں کشمیر میں چند ایک کے بغیر تقریباً سبھی اردو اخبارات و الیکٹرانک میڈیا سے رپورٹنگ غائب ہوتی جارہی ہے۔
مزید پڑھیں:
کتنا بہتر ہوتا کہ اردو صحافت کی بازیابی کے لیے اگر سنجیدگی کے ساتھ اسے پڑھایا جاتا تاکہ اردو صحافت کا نام ہمیشہ کے لیے زندہ رہتا اور اردو صحافت پڑھنے کے رجحان میں بہتری آجاتی۔