اردو

urdu

ETV Bharat / city

'بلال احمد کا کارنامہ دیگر نوجوانوں کے لیے مشعل راہ' - يعمل عدد كبير من سكان كشمير في الزراعة

پوری وادی کے ساتھ ساتھ ضلع پلوامہ میں پڑھے لکھے نوجوانوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے بے روزگاری بھی کافی حد تک بڑھ گئی ہے۔ تاہم پوری وادی کے ساتھ ساتھ ضلع پلوامہ کے نوجوان بھی حکومت کی جانب سے دی گئی مختلف اسکیموں کا فائدہ اٹھاکر خود کے ساتھ ساتھ دوسرے نوجوانوں کو بھی روزگار فراہم کرانے میں لگے ہوئے ہیں۔

'بلال احمد کا کارنامہ دیگر نوجوانوں کے لیے مشعل راہ'
'بلال احمد کا کارنامہ دیگر نوجوانوں کے لیے مشعل راہ'

By

Published : Aug 6, 2021, 5:34 PM IST

Updated : Aug 6, 2021, 8:45 PM IST

کشمیر کی ایک بڑی آبادی کھیتی باڑی کرتی ہے، یہاں ہر قسم کی فصلیں اگائی جاتی ہیں اور یہی ان کا ذریعۂ معاش ہے۔ ان فصلوں کو اگانے کے لیے کیمیائی کھادوں کا استعمال کیا جاتا ہے جو ملک کی دوسری ریاستوں میں تیار کی جاتی ہیں اور پھر وادی کے کسان بھی ان کھادوں کا استعمال اپنی فصلوں کو تیار کرنے میں کرتے ہیں، لیکن ان کیمیائی کھادوں کے تعلق سے یہاں کے لوگوں کی یہی رائے ہوتی ہے کہ یہ معیاری نہیں ہیں اور ان کیمیائی کھادوں کے استعمال سے فصلیں متاثر ہوتی ہیں۔

'بلال احمد کا کارنامہ دیگر نوجوانوں کے لیے مشعل راہ'

اس ضمن میں ضلع پلوامہ کے مورن علاقے سے تعلق رکھنے والے بلال احمد نے (PMDP) (Prime Minister's Development Package) کے تحت ایک ورمی کمپوسٹ یونٹ تیار کیا ہے، جس سے وہ نہ صرف خود، بلکہ دوسرے نوجوانوں کو بھی روزگا فراہم کرارہے ہیں۔ بی ایڈ اور پوسٹ گریجوٹ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بلال احمد نے ایک پرائیویٹ اسکول میں بحثیت استاد پڑھانا شروع کیا، لیکن وہ اس سے مطمئن نہیں تھے، جس کے سبب انہوں نے سال 2018 میں ورمی کمپوسٹ یونٹ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس کام کے لیے سب سے پہلے انہوں نے کِرشی وگیان کیندر ملنگپورہ سے ٹریننگ حاصل کی اور پھر یہ یونٹ قائم کیا جہاں وہ ہر روز 4-5 افراد کو روزگار فراہم کرارہے ہیں۔ اس تعلق سے بلال احمد نے کہا کہ 'مجھے یہ یونٹ قائم کرنے کے لئے مختلف سرکاری محکموں سے مدد ملی جس کے سبب میں روزگار کمانے کا اہل ہوا۔

بلال احمد نے پڑھے لکھے نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ بھی ان سرکاری اسکیموں کا فائدہ اٹھاکر روزگار کمانے کے لائق بنیں۔ انہوں نے کہا کہ ورمی کمپوسٹ کھاد کیمیائی کھاد سے لاکھ درجہ بہتر ہے کیونکہ اس میں کسی طرح کا کوئی بھی کیمیکل شامل نہیں ہوتا اور اس کا استعمال قدیم زمانے سے کیا جاتا رہا ہے۔

اب اس کو نئی تکنیک کے ساتھ تیار کیا جاتا اور بنا کسی کیمیکل کے تیار کیا جاتا ہے۔ اس کے استعمال سے کسانوں کو کافی فائدہ ہوتا ہے اور فصل کو بھی کس قسم کا نقصان نہیں پہنچتا۔ اس تعلق سے وہاں کام کرنے والے عبدالکریم نے کہا کہ 'میں پچھلے کئی برسوں سے یہاں کام کررہا ہوں اس کی وجہ سے مجھے روزگار حاصل ہوا ساتھ ہی ورمی کمپوسٹ کھاد میوہ جات اور سبزیوں کے لئے بہت ہی نفع بخش ثابت ہورہا ہے۔

مزید پڑھیں:راجوری تھانہ منڈی انکاؤنٹر، دو عسکریت پسند ہلاک

انہوں نے دوسرے نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ بھی کسی نہ کسی کاروبار سے منسلک ہوں تاکہ وہ خود اور دوسروں کو روزگار فراہم کر سکیں۔ پڑھے لکھے نوجوانوں کو ہمت اور حوصلہ دیتے ہوئے بلال احمد نے کہا کہ 'کوئی بھی کام چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا، انسان کو جس چیز میں مہارت ہو وہی کرنا چاہئے'۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ورمی کمپوسٹ کھاد تیار کرنے کے لئے بلال احمد کو کئی بار انعامات سے نوازا جاچکا ہے۔

نامیاتی زراعت ایک پائیدار زرعی نظام ہے، جس میں کاشت کاری میں مصنوعی ان پٹس (کھاد وغیرہ) کے استعمال سے اجتناب کیا جاتا ہے اور زرعی اِن پٹس جیسے کہ فصل کی باقیات، فارم یارڈ کھاد، کمپوسٹس، ورمی-کمپوسٹ، کھلی (آئل کیکس)، حیاتیاتی کھاد وغیرہ کا فصلوں کے غذائی بندوبست کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح سے جراثیم اور فصلوں کو لگانے والی بیماریوں کا بندوبست ماحولیات دوست زرعی طور طریقوں سے کیا جاتا ہے، جن میں کراپ روٹیشن یعنی فصل بدل بدل کر کھیتی کرنا، ٹریپ فصلیں، حیاتی جراثیم کش، جیسے نیم پر مبنی فارمولیشن، بایوکنٹرول ایجنٹس، میکانیکل ٹریپس، اسٹیل شیڈ بیڈ وغیرہ شامل ہیں۔ نامیاتی زرعی طور طریقوں کو اپنانے سے محفوظ غذا پیدا ہوتی ہے۔ ساتھ ہی پیداوار کی لاگت میں کمی آتی ہے، مٹی کی صحت بہتر ہوتی ہے اور ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات اور گلوبل وارمنگ کو کم سے کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ کیمیائی کھادوں پر انحصار میں کمی لائی جاتی ہے۔ ورمی کمپوسٹ آرگینک کھاد کی ہی ایک شکل ہے۔ اس کو بنانے کے لئے دس بائی تین فٹ کا پلیٹ فارم کسی درخت یا کسی سایہ دار جگہ کے نیچے بنایاجاتا ہے۔ ایک یونٹ میں لگ بھگ 3کوئنٹل ورمی کمپوسٹ تیار کیا جاسکتا ہے۔

Last Updated : Aug 6, 2021, 8:45 PM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details