انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ کشمیر کی تین پارلیمانی نشتوں پر بی جے پی کے امیدواروں کو 90 فیصد ووٹ مہاجر کشمیری پنڈتوں کا تھا۔
انتخابی نتائج پر کشمیری مہاجر پنڈتوں کا ردعمل اننتناگ پارلیمانی نشست پر بی جے پی کے امیدوار صوفی کو کل 10225 ووٹ ملے ہیں، جس میں 7251 ووٹ کشمیری مہاجرین نے ڈالے ہیں۔
اسی طرح بارہمولہ پارلیمانی نشست پر بی جے پی کے امیدوار محمد مقبول وار نے کل 7894 ووٹ حاصل کیے جس میں 2394 کشمیری مہاجرین کے تھے۔
جبکہ سرینگر پارلیمانی نشست کے لیے شیخ خالد جہانگیر کو کل 4631 ووٹ ملے جس میں 2584 ووٹ کشمیری مہاجرین کے شامل ہیں۔
ضلع اننت ناگ کے رہنے والے پنڈت رجندر کول کا کہنا ہیں کہ ' جس طرح ملک کے لوگوں کو بہت ساری امیدیں نریندر مودی سے وابستہ ہیں، ہم نے بھی ان پر بھروسہ کیا ہے، خاص کر گھر واپسی کو لیکر ہم نے نریندر مودی کو ووٹ دیا'۔
پنڈت اوتار کرشن کا بھی یہی خیال ہیں کہ 'بی جے پی حکومت اس بار کشمیری میگرنٹ پنڈتوں کی گھر واپسی یقینی بنائے اور پرامن طریقے سے ان کو کشمیر میں بازیاب کرائے'۔
دفعہ 370 پر پوچھے گئے سوال پر اوتار کرشن نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ 'کشمیری میگرنٹ پنڈتوں کو دفعہ 370 سے نا کوئی فائدہ ہے اور نا ہی کوئی نقصان'۔
ظلع اننت ناگ کے رہنے والے پنڈت وونود کمار ریسی کا ماننا ہے کہ 'نریندر مودی جو چاہے وہ کرے لیکن دفعہ 370 اور 35 اے کو نہ ہٹائےکیونکہ وہ ہماری شان ہیں اس کو ہٹانے سے جموں کشمیر کو نقصان ہوگا'۔
ریاست میں کشمیری پنڈتوں نے سنہ 1989 میں ہجرت کر کے جموں اور ریاست کے باہر رہائش اختیار کی۔ ان کو کشمیر میں واپس بسانے کے لیے 1990 سے بھارت کی سیاسی جماعتوں نے وعدے کیے لیکن آج تک ان عودوں کو عملہ جامہ نہیں پہنایا گیا۔