مرکزی حکومت جس نے جموں کشمیر کے بارے میں اگست میں لئے گئے اپنے فیصلے( ریاست کے خصوصی اختیارات واپس لینے اور اسے دو حصوں میں تقسیم کرکے مرکز کے زیر انتظام لانے ) پر عالمی ردعمل کی کوئی پرواہ نہیں ، وقتی طور ہی صحیح چالاکی سے اپنی پالیسیوں کو تبدیل کررہی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ پانچ ماہ سے زائد عرصے تک وادی کشمیر میں سیکورٹی قدغن جاری رہنے کے بعد اب یہ قدغن نرم کی جارہی ہے۔ انٹرنیٹ سروس کو پانچ ماہ تک بند رکھے جانے کے بعد اب عنقریب ہی اہم اداروں اور اہم سروس کے لئے جزوی طور پر بحال کیا جائے گا۔
سفارتکاروں کا دورہ
حکومت ہند نے حال ہی میں نئی دہلی میں تعینات غیر ملکی سفیروں کی ملاقات کشمیری سماج کے مختلف مکاتب فکر سے وابستہ لوگوں سے کرانے کیلئے اس سفراء کو جموں کشمیر کا دورہ کرایا ۔
امریکہ، بنگلہ دیش، ویت نام،ناروے ، مالدیو، ساؤتھ کوریا، ماروکو، نائیجریا،ارجنٹینا، اور فلپائین وغیرہ جیسے ممالک سے تعلق رکھنے والے ان سفیروں کو حکومت کی رہنمائی کے ساتھ یونین ٹریٹری کا دورہ کرایا گیا۔
ان سفارتکاروں کو کشمیر میں چند منتخب صحافیوں ، سیاسی لیڈروں اور سیول سوسائٹی کے رضاکاروں سے ملایا گیا۔توقع کے عین مطابق اس سفارتکاروں کو کشمیر کے اعلیٰ سطحی سیاسی قیدیوں یا عام سیاسی نظربندوں سے ملاقات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ۔
اطلاعات کے مطابق بیشتر ملاقات کرنے والوں نے ان غیر ملکی سفیروں کو یہ تاثر دیا ہے کہ کشمیر میں خاموشی ہے اور اگست سے اب تک ایک بھی گولی نہیں چلائی گئی ہے۔یہ وہی استدلال ہے ، جو عمومی طور پر نئی دلی اپنی کشمیر پالیسی کو جواز بخشنے کے لئے پیش کرتی رہتی ہے۔
حکومت ہندنے حال ہی میں یہ اعلان بھی کیا کہ اسکے کئی اہم وزراء عنقریب ہی کشمیر کا دورہ کریں گے تاکہ یہ وزراء کشمیر میں لوگوں سے تعمیر و ترقی کے لیے کیے جارہے اُن اقدامات کے بارے میں بات کریں گے ، جو مرکزی سرکار یونین ٹریٹری میں کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ظا ہر ہے کہ وزراء کا دورہ ایک ایسا قدم ہے ، جس کی اس وقت ضرورت ہے۔
حقیقت میں سفارت کاروں کا حالیہ دورہ جموں کشمیر اور وزراء کا مجوزہ دورے سے حکومت ہند یہ عندیہ دینا چاہتی ہے کہ کشمیر میں حالات معمول پر آرہے ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ حکومت نے چند مخصوص سفارت کاروں کو ہی دورے کیلئے منتخب کیوں کیا اور انہیں صرف ان ہی لوگوں سے ملنے کی اجازت کیوں دی گئی ، جن کا انتخاب حکومت نے کیا تھا؟
اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ غیر ملکی سفیروں کو کشمیر جانے کی اجازت دی گئی ہے، لیکن بھارت کے سیاستدانوں کو اپنے ہی ملک کے اس حصے میں جانے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔
اگر یہ سچ ہے کہ حکومت کا مقصد کشمیری عوام کا دکھ درد بانٹنا ہے تو پھر ایک کل جماعتی وفد کو کشمیر کا دورہ کیوں نہیں کرایا جاتا ہے ،جیسا کہ سال 2010 میں کیا گیا ۔ جب وادی میں بھارت مخالف احتجاج جاری تھی۔
در اصل یہ حکومت ہند کی جانب سے محض آدھے ادھورے اقدامات ہیں ، جن کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کشمیر میں امن بحال ہورہا ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر میں نارملسی کا کوئی نام و نشان بھی نہیں ہے۔اگر واقعی نارملسی بحال کرنی ہے تو عام سیاستدانوں کو کشمیر جانے کی اجازت دی جانی چاہیے۔
اقدامات کی مخصوص ٹائمنگ
قدغن نرم کرنے کے اقدمات سپریم کورٹ کی اُن ہدایات کے بعد کئے گئے ، جن میں کورٹ نے بتایا کہ انٹرنیٹ کو مکمل طور پر بند کرنا غیر قانونی ہے اور ایسا کرناطاقت کا غلط استعمال ہے۔
اگرچہ سپریم کورٹ کی ان ہدایات میں تمام طرح کے مناسب الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے لیکن حق بات یہ ہے کہ ان ہدایات میں کشمیریوں کے لئے کوئی زیادہ راحت نہیں تھی ۔ کیونکہ عدالت نے حکومت کو کشمیر میں پابندیاں ختم کرنے کی واضح ہدایات دینے کے بجائے اسے کہا کہ وہ کشمیر میں پابندیوں کے اقدامات پر نظر ثانی کرے ۔
مسئلہ یہ ہے کہ اس عدالتی حکم کے تناظر میں اب حکومت کے پاس موقع ہے کہ وہ واقعی نظر ثانی کرے گی ، لیکن اس کے بعد ان اقدامات کو جاری رکھنے کا دوبارہ فیصلہ کرے گی ۔ متذکرہ عدالتی فیصلے کے ایک حصے میں کورٹ نے کہا کہ اظہار رائے کی آزادی اور قومی سلامتی دونوں کا خیال رکھا جانا چاہیے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ عدالت شہریوں کی آزادی کے تحفظ یقینی بنانے کے لئے اقدامات کرتی۔ہم جانتے ہیں کہ سیکورٹی کے بہانے شہریوں کی آزادی کو سلب کرنے کے نتیجے میں جمہوری آزادی کے خاتمے کی شروعات ہوگی ۔
وادی میں ایک نئی طرح کی سیاست
کشمیر کے حوالے سے حکومت ہند کیا حکمت عملی اختیار کررہی ہے ۔ اسے سمجھنے کے لیے حکومت کے چھوٹے چھوٹے اقدامات کا جائزہ لینا ہوگا۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ کشمیر میں نافذ پابندیوں کو ہٹانے کا عمل بہت سست ہے۔
یہ ایک مسلسل عمل ہے ، جس میں وقت لگے گا۔لیکن اُمید ہے کہ اب عدالتی حکم ، داخلی اور بین الاقوامی دبائو کے نتیجے میں پابندیاں ہٹانے کے عمل میں تیزی آئے گی۔
حکومت ہند کی دوسری حکمت عملی یہ ہے کہ جموں کشمیر کی یونین ٹریٹری میں نئے سیاسی چہروں کو سامنے لانے کیلئے نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی جیسی روایتی سیاسی جماعتوں کے سینئر سیاسی لیڈروں کو سیاسی منظر نامے سے دور رکھا جائے ۔اس کے نتیجے میں کشمیر میں ایک نئی طرح کی سیاست ابھر آئے گی ، جس میں رہنماؤں کا ایک نیا جھُنڈ نئے طرح کے مطالبات اورنئے سودے کرنے کے لئے سامنے آئے گا۔
یہ حقیقت کہ جیلوں میں بند مین سٹریم لیڈراں عوام کے پسندیدہ نہیں ہیں۔ اس لیے ایک نئی لیڈرشب کو پیدا کرنے کے خلاف وادی میں کوئی بہت زیادہ مزاحمت دیکھنے کو نہیں ملے گی ۔
تیسری حکمت عملی یہ ہوگی کہ کشمیری لیڈرشپ کو نئی دلی کے ساتھ بات چیت کے عمل میں لگائے رکھا جائے ۔یہ لیڈر نئی دلی کے ساتھ بات چیت کے عمل میں جموں کشمیر کو ریاست کا درجہ واپس دلانے کے لیے کوششیں کریں گے ۔
جموں کشمیر کو ریاست کا درجہ بحال کرانا کا مطالبہ آنے والے برسوں کے دوران ایک بڑا مطالبہ ہوگا۔ ایک بار جب سرینگر اور نئی دلی کے درمیان اس مطالبے کو لیکر بات چیت کا عمل شروع ہوجائے گا تو اس مسئلے کو لیکرکافی وقت گذاری کی جاسکتی ہے۔
بظاہر یہ سب موثر حکمت عملیاں نظر آرہی ہیں۔لیکن یہ صرف کہنے کے لیے آسان ہیں ۔ انہیں عملی طور پر نافذ کرنا آسان نہیں ہوگا۔کشمیری نوجوان جو شدید ذلت محسوس کررہے ہیں۔ و ہ اس طرح کی حکمت عملیوں کے جھانسے میں نہیں آسکتے ہیں۔
سوا ل یہ ہے کہ کیا آنے والے مہینوں اور برسوں میں نئی دلی کشمیر کی سیاست کو طے کرے گی یا پھر کشمیری نوجوانون کشمیر کی سیاست کا مستقبل طے کریں گے۔
سب سے اہم یہ ہے کہ جب کشمیر میں ساری پابندیاں ختم کی جائیں گی تو اُس وقت کیا ہوگا۔اگر وادی میں ایک عوامی تحریک شروع ہوگئی تو حکومت ہند کی یہ ساری حکمت عملیاں ، جنہیں کشمیر کا نیا سیاسی منظر نامہ مرتب کرنے کے لئے سوچ سمجھ کر نافذ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، وہ دھری کی دھری رہ جائیں گی۔
ایک اورہم بات یہ ہے کہ آنے والے وقت میں پاکستان کشمیر کے حوالے سے کیا حکمت عملی اختیار کرتا ہے؟ اس کا جواب تو آنے والا وقت ہی دے سکتا ہے۔پاکستان پر ایک بار ایف اے ٹی ایف کا دبائو کم ہوجائے اور کشمیر میں برف پگھلنا شروع ہوجائے تو وہ کشمیر میں اپنی کارروائی پھر شروع کرسکتا ہے۔ اگر ایسا ہواتو ہمیں اور کشمیریوں کو ایک پر تشدد سرگرمیوں کے لئے تیار رہنا ہوگا۔
ہیپی مون جاکوب( اسسٹنٹ پروفیسر ، جواہر لعل یونیورسٹی)