کشمیری پنڈتوں کے وادی سے بے گھر ہونے کے سانحے کو آج 32 برس پورے Dark Day for Kashmiri Pandits ہوئے ہیں لیکن ان 32 سالوں میں کشمیری پنڈت کبھی بھی وہ دردناک وقت اور خونی ماحول نہیں بھول پائے Exodus of Kashmiri Pandits ہیں۔ان 32 سالوں میں کئی حکومتیں آئیں اور گئیں، کئی وزیر اعظم آئے اور وعدے کیے لیکن آج تک کشمیری مہاجر پنڈتوں کو کشمیر واپسی کا وعدہ پورا نہیں ہوسکا۔
سنہ 1990 میں فاروق عبداللہ کے مستعفی ہونے کے بعد جموں و کشمیر میں صدر راج کا آغاز ہوا۔ اس دوران جموں و کشمیر میں سیاسی بدامنی اور ہندو مخالف تحریک بھی شروع ہوئی جس کے سبب کشمیری پنڈتوں کو وادی سے ہجرت کرنے پر مجبور Kashmiri Pandits Migrate to Jammu ہونا پڑا۔
جموں کے مختلف علاقے خاص طور پر جگتی جموں میں مہاجر پنڈتوں کے لیے حکومت نے کوارٹرز تیار کیے ہیں لیکن یہ مہاجر پنڈت آج بھی اپنے آبائی گھروں کو جانے کی بات کہہ رہے ہیں۔
کشمیری پنڈتوں کے مطابق وادی کی نامساعد حالت کے پیش نظر انہیں وادی سے ہجرت کرنی پڑی تھی۔ تاہم وادی سے نکلنے کے بعد انہیں طرح طرح کے مشکلات سے دوچار ہونا پڑا تھا۔
شادی لال پنڈت کے مطابق انہوں نے 19 جنوری 1990 کو عسکریت پسندوں کے ذریعے وادی خالی کردینے کی دھمکی کے بعد کشمیر چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
شادی لال کہتے ہیں کشمیر سے جب وہ نکلے ان کی دوبیٹیاں، بیوی اور تین غیر شادی شدہ بہنیں تھیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومتوں سے صرف وعدے ملے، امیدیں بندھائی گئیں لیکن آج تک کسی بھی طرح کی مدد کشمیری مہاجر پنڈتوں کو نہیں ملی خاص طور پر مرکز میں برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے۔
یہ بھی پڑھیں:پلوامہ: مسلمانوں نے کشمیری پنڈت کی آخری رسومات ادا کی
ایک اور کشمیری مہاجر پنڈت خاتون للتا پنڈتا کا کہانا تھا کہ وہ 19 جنوری 1990 کو کشمیر سے بھاگ کر جموں پہنچیں اور ابھی تک در در کی ٹھوکرے کھا رہی ہیں۔ انہوں نے مرکزی حکموت سے اپیل کی کہ وہ کشمیری میگرنٹ پنڈتوں کو کشمیر میں الگ کالونیئز بناکر دے تاکہ وہ کشمیر میں رہ سکیں۔