عشق کی بات ہو اور عشق میں مر مٹنے والے ان دو شخص کا ذکر نہ ہو، ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ان کا مقبرہ راجستھان کے انوپ گڑھ میں تعمیر کیا گیا ہے۔ اس ویلنٹائن اسپیشل میں ای ٹی وی بھارت آپ کے لیے لایا ہے 'کہانی دو محبت کرنے والوں کی'، جن کا جسم تو الگ تھا لیکن دونوں کی روح ایک تھی۔ یہ کہانی ہے لیلیٰ اور مجنوں کی۔
ہم سب نے لیلیٰ اور مجنوں کے بارے میں سنا ہے ، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ دونوں کی شادی کیوں نہیں ہوسکی تھی؟ ویسے، لیلی مجنوں کی تاریخ بھارت سے وابستہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان دونوں نے اپنی زندگی کے آخری لمحات پاکستان کی سرحد سے صرف 2 کلومیٹر دور راجستھان کی سرزمین پر گزارے۔ صرف یہی نہیں، یہاں ایک مقبرہ بھی بنایا گیا ہے۔ یہ مزار ضلع سری گنگانگر میں ہے۔ تحصیل انوپ گڑھ کے گاؤں بنجور میں تعمیر اس مقبرے پر محبت کرنے والے اپنی محبت کا نذرانہ پیش کرنے اور اپنی مرادیں مانگنے یہاں آتے ہیں۔
لیلی مجنوں کی کہانی ساتویں صدی کی ہے۔ اس وقت عرب کے صحراؤں میں امیروں کا راج تھا۔ انہیں میں سے ایک امیر کے گھر امراء القیس پیدا ہوئے۔ قیس کے پیدا ہونے کی خوشی میں جشن منایا گیا۔ اس جشن میں ایک نجومی بھی آیا تھا۔ اس نے قیس کو دیکھنے کے بعد یہ پیشن گوئی کی کہ یہ بچہ بڑا ہو کر عشق کے چکر میں پڑنے والا ہے۔ نجومی نے پیشن گوئی کی کہ آنے والے وقت میں قیس محبت میں دیوانہ ہو کر در در بھٹکتا پھریگا۔
دوسری طرف ، عرب کی ایک اور شاہی سلطنت جہاں ایک چھوٹی سی بچی لیلیٰ پیدا ہوئی، گویا خدا نے اسے صرف قیس کے لیے ہی بھیجا ہو۔ لیلی کی پرورش ایک شہزادی کی طرح ہوئی۔ وہ دیکھنے میں بھی بہت خوبصورت تھی۔ اس کے گھر میں لیلیٰ کے والدین اور ایک بھائی تھا۔
جب قیس ابتدائی تعلیم مکمل کر رہا تھا۔ تب لیلی دمشق کے مدرسے میں اسی جگہ پڑھنے آتی تھی۔ لیلیٰ کو دیکھتے ہی قیس کو اس سے محبت ہو گئی۔ بچپن میں ہی لیلیٰ اور قیس ایک دوسرے پسند کرنے لگے۔
مدرسے کے استاذ نے کئی دفعہ دونوں کو کہا کہ دونوں اپنی تعلیم پر توجہ دیں لیکن قیس کی نظر کبھی لیلی سے ہٹی ہی نہیں اور قیس کی محبت اس قدر بڑھتی گئی کہ اس نے بچپن سے صرف لیلی لیلی رٹنا شروع کر دیا تھا۔
ایک بار جب مولوی صاحب نے قیص سے اللہ لکھنے کو کہا تو اس نے اللہ کے بجائے لیلی لکھا، یہاں تک کہ مولوی کے بار بار کہنے پر بھی قیس نے ان کی بات نہیں مانی اور وہی لکھتا رہا۔ ناراض مولوی نے اسے چھڑی سے مارنا شروع کیا، جس کا نشان لیلی کے ہاتھوں پر پڑنا شروع ہوا۔ یہ دیکھ کر مولوی بھی چونک گیا اور یہ معاملہ دونوں کے اہل خانہ کو بھی بتایا۔
جب مولوی نے ان دونوں کے گھرانے سے اس کا تذکرہ کیا تو دونوں کو الگ کر دیا گیا اور چاہ کر بھی وہ ایک دوسرے سے نہیں مل سکے۔
وقت بدلا پر محبت نہیں
کئی برسوں کے بعد اب دونوں بڑے ہو چکے تھے۔ ایک بار لیلیٰ اور قیس دونوں ایک ہی میلے میں پہنچے۔ قیس کی آنکھیں میلے میں لیلی کو تلاش کر رہی تھیں۔ دونوں نے ایک دوسرے کو نظروں سے پہچان لیا۔ لیلی کو اپنے بچپن کی محبت کو دیکھ کر اتنی ہی خوشی ہوئی، جتنی کسی پرندے کے ٹوٹے ہوئے پروں کے ملنے سے ہوتی ہے۔ قیس نے لیلیٰ کے لئے شاعری شروع کردی۔ لیلیٰ اور قیس ایک دوسرے سے دیوانہ وار محبت کرنے لگے۔ انہیں نہ تو سماج کی پرواہ تھی اور نہ ہی اپنے گھر والوں کی۔
اس بات کی خبر جب لیلی اور قیس کے گھروالوں کو ملی تو انہیں ایک دوسرے سے جدا کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیلی کے گھر والوں کو قیس بالکل بھی پسند نہیں تھا۔انہوں نے لیلی کی شادی کہیں اور کرنے کا فیصلہ کیا اور لیلی کو گھر میں قید کردیا۔