اردو

urdu

ETV Bharat / city

بغیر بنیاد کے جے پور کا ہوا محل

عالمی ثقافتی ورثہ کی فہرست میں ہوا محل کا نام شامل ہے، پانچ منزلہ محل کی خوبصورتی بے مثال ہے۔

hawa mahal
hawa mahal

By

Published : Mar 29, 2021, 5:49 PM IST

بھارتی ریاست راجستھان کے دارالحکومت جے پور کا ہوا محل عالمی سطح پر اپنی منفرد شناخت رکھتا ہے۔

یہ محل یہاں موجود 365 ونڈوز، عقیدت کی طور پر تعمیر شدہ 8 کمپلیکس (مندر) اور سٹی محل سے منسلک ہیریٹیج واک کے لئے ہی نہیں بلکہ چونے کے کاموں کے لئے بھی مشہور ہے۔ لوگ یہاں کا آرکیٹیک دیکھنے کے لئے دور دراز سے آتے ہیں۔

بغیر بنیاد کے جے پور کا ہوا محل

ہووا محل کا بنیادی تصور سوائے جئے سنگھ کی عقیدت سے جڑا ہوا ہے، جو ان کی زندگی میں کئی وجوہات کے باعث ممکن نہ سکا۔ تاہم ان کے بیٹے سوائے پرتاپ سنگھ نے 1799ء میں ہوا محل تعمیر کرایا۔ جب چندر محل کی چھت سے اسے دیکھا جاتا ہے، تو یہ ہندوؤں کے دیوتا کرشن کے تاج کی طرح معلوم پڑتا ہے۔ اس کے قریب ہندو دیوتا گووردھن ناتھ کا ایک مندر بھی ہے۔ اس کے علاوہ محل میں 365 کھڑکیاں ہیں، جو موسم گرما میں یہاں لوگوں کو راحت پہنچاتی ہے۔

آج ہوا محل کا شمار ملک کی اہم وراثت میں ہوتا ہے۔ عالمی ثقافتی ورثہ کی فہرست میں بھی اس کا نام شامل ہے۔

ہوا محل کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ یہ ایک تاج کی طرح کا ڈھانچہ ہے جو ایک بڑے پلیٹ فارم پر بنایا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق ہوا محل راجہ نے اپنے آرام کے لئے نہیں بلکہ اپنے دیوتا کی عقیدت میں تعمیر کرایا تھا۔ اس کا مرکزی دروازہ آنند پولی ہے۔ اور اس کے بعد چندرپولی ہے، جس پر پانچ دیوتاؤں کی تصویر بنائی گئی ہے۔

اس کے علاوہ محل میں موجود 8 حصوں کو مندروں کے نام پر رکھا گیا ہے۔ ان میں سے ایک کا نام جے پور کے پانچویں مہاراجہ سوائے پرتاپ سنگھ کے نام پر ہے، جو ہندو دیوتا کرشن کی پوجا کرتے تھے۔

اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہوامحل عقیدت کے لئے بنایا ہوا ایک محل تھا۔ سوائے پرتاپ سنگھ کے زمانے میں ہی جے پور میں بہترین اسٹرکچر کی تعمیر ہوئی۔

ماہرین کا الزام ہے کہ اس کا اصل رنگ سرخ گلابی تھا جبکہ اس کے گنبد پر سونے کی پالش کی گئی تھی، جسے اب تبدیل کر دیا گیا ہے، اس کے علاوہ اس کے داخلے دروازے پر لگی جالیاں چونے کی تھی، جہاں اب پتھروں کی جالیاں نصب کر دی گئی ہیں، اس کے باعث اب یہاں گرم ہوا محسوس ہوتی ہے۔ ظاہر ہے وراثت کے ساتھ ایسی چھیڑ چھاڑ کو قطعی درست قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں اب اسے محفوظ کرنا ضروری ہو گیا ہے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details