ڈائریکٹوریٹ آف ٹرانسلیشن اینڈ پبلی کیشنز (ڈی ٹی پی)، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کی جانب سے ”اردو میں معلوماتی ادب“پر منعقدہ دو روزہ آن لائن سمینار کا انعقاد کیا گیا۔
سیمینار کے افتتاحی اجلاس میں آن لائن کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے ممتاز نقاد اور دانشور پروفیسر شافع قدوائی، صدر شعبہ ماس کمیونی کیشن، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے کہا کہ ٹکنالوجی نے ہمیں با اختیار بناتے ہوئے ساری انسانیت کو مساوی کردیا ہے۔ اب ہمارا معاشرہ ایک اطلاعاتی معاشرہ بن چکا ہے اور اطلاعات و معلومات اس کی بنیادی ضرورت ہیں۔ چنانچہ معلوماتی ادب کی تخلیق وقت کی اہم ایک ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ' معلوماتی ادب دراصل اطلاع رسانی اورذہن سازی کا ایک ذریعہ ہے۔ اس میں نصابی کتب، وضاحتی کتب اورفرہنگیں شامل ہوتی ہیں۔ اس کا مواد، اعداد و شماراور حوالے پر مبنی ہوتا ہے۔یہ مبنی بر موضوع ہوتا ہے، اس کا ترجمہ آسان ہوتا ہے لیکن مصنف کے لیے موضوع پر عبورلازمی ہے۔
معلوماتی ادب کی زبان عام فہم ہونی چاہیے۔ اصطلاح سازی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ' اصطلاح وضع کرنی چاہیے نہ کہ ترجمہ۔ یہ سمینار قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے مالی تعاون سے کیا جارہا ہے۔
سیمینار سے بحیثیت مہمانِ خصوصی آن لائن خطاب کرتے ہوئے پروفیسر شہ میری، وائس چانسلر عبدالحق اردو یونیورسٹی، کرنول نے تخلیقی ادب اور معلوماتی ادب کا تقابل کیا اور دوران ترجمہ اصطلاح کو جوں کا توں استعمال کرنے کی صلاح دی۔
ساتھ ہی انہوں نے اردو میڈیم طلبہ کو درپیش مسائل کا ذکر کیا اور کہا کہ ذو لسانی تدریس یعنی مادری زبان کے ساتھ ساتھ انگریزی میں تدریس اس کا ایک حل ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ' اردو کا کوئی بڑا مرکز نہ ہونا اردو میڈیم کی نصابی و دیگر کتب کی عدم اشاعت کا سبب بن رہا ہے'۔