حیدرآباد کے ورثے کی حامل عمارتوں کے تحفظ کیلئے عدلیہ سے رجوع کرنے والی تنظیم کے ایڈوکیٹ پی نروپ نے حکومت کے اس اقدام پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اصولاً کسی بھی عمارت کے سو برس کی تکمیل پر اسے تاریخی ورثے کے زمرے میں شامل کیا جاتا ہے لیکن تعجب ہیکہ تلنگانہ حکومت نے ان اہم عمارتوں کو نئی درجہ بندی میں جگہ نہیں دی، جبکہ ایسی کئی عمارتیں اس فہرست میں شامل ہیں جن کا سرے سے وجود نہیں۔
تاریخی عمارتوں کی درجہ بندی پر تلنگانہ ہائی کورٹ میں سماعت
حکومت تلنگانہ کی جانب سے 2017 میں ترتیب دی گئی تاریخی عمارتوں کی از سر نو درجہ بندی میں ہائی کورٹ اور اسمبلی عمارتوں کو شامل نہیں کیا گیا جن کو تاریخی ورثے کا درجہ حاصل ہے۔
تاریخی عمارتوں کی درجہ بندی پر تلنگانہ ہائی کورٹ میں سماعت
اس ضمن میں سوشلسٹ پارٹی آف انڈیا کی رہنما اور سماجی کارکن لبنی ثروت نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے حکومت تلنگانہ پر من مانی اور انانیت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلی خود کو قانون سے بالاتر تصور کرتے ہوئے تاریخی ورثے سے چھیڑ چھاڑ کی ہے اور ارم منزل کے بشمول کئی اہم عمارتوں کو پرانی فہرست سے خارج کر دیا ہے، انھوں نے کہا کہ ان کا یہ آمرانہ رویہ عوام کیلئے نا قابل قبول ہے۔
Last Updated : Sep 28, 2019, 4:16 PM IST