ایک خاندان اپنی معاشی زندگی کو بہتر بنانے کی امید میں شہر کی طرف رخ کرتا ہے۔ اس خاندان میں ایک 16 سال کی بچی بھی ہے جو فارغ وقت میں اپنی ماں کی چائے کی دوکان کو چلانے میں ان کا ہاتھ بٹاتی ہے۔ اچانک ایک رات وہ غائب ہوجاتی ہے جب وہ اپنی ماں کے ساتھ گھر آ رہی ہوتی ہے۔ لڑکی کے گھر والے اس کا پتہ لگانے میں ناکام ہوجاتے ہیں تب وہ تھک ہار کر رات کے 11 بجے بھارت کے جنوبی حیدرآباد کے گچی باؤلی پولیس اسٹیشن میں لڑکی کی گمشدگی کی شکایت درج کراتے ہیں۔ شکایت درج کرانے کے بعد ماں اس امید سے گھر واپس چلی جاتی ہے کہ اس کی بیٹی جلد ہی مل جائے گی لیکن بے بس ماں کو کیا معلوم کہ دوسرے دن اسے خوفناک خبر سننے کو ملے گی۔ اگلے دن پولیس اطلاع دیتی ہے کہ ایک سنسان علاقے سے ایک لاش برآمد کی گئی ہے۔ اپنی بچی کو بے جان اور شدید زخمی حالت میں دیکھ کر وہ غش کھا کر گرجاتی ہے۔
گزشتہ روز قبل شمش آباد علاقے سے ایک نوجوان ڈاکٹر دیشا کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کے بعد بے رحمی سے قتل کردیا گیا۔ رات کے قریب 9 بجے دیشا نے اپنی بہن کو فون کر کے اپنی پریشانی بتائی۔ وہ خوف میں تھی کہ کچھ لوگ اس کا پیچھا کر رہے ہیں۔بہن سے بات ہونے کے کچھ منٹوں کے اندر دیشا کا فون بند ہوگیا۔ دیشا کے مضطرب والدین نے شکایت درج کرانے کے لیے دو پولیس اسٹیشن سے رابطہ کیا۔ پولیس کی مبینہ لاپرواہی کی وجہ سے دیشا کو مردہ حالت میں پایا گیا، اس کی لاش جلی ہوئی ملی تھی۔ معاشرے کے تمام طبقات پولیس کی اس لاپرواہی پر غم و غصے میں ہیں کہ صورتحال کی حساسیت دیکھتے ہوئے بھی پولیس نے اپنے کام میں کوتاہی برتی۔
شہر کے ہر پولیس اسٹیشن میں گمشدہ لوگوں کی تصویروں سے بھرا ایک ڈسپلے بورڈ موجود ہوتا ہے۔کچھ پولیس اسٹیشن میں انعام کا بھی اعلان کیا جاتا ہے کہ جو بھی فرد کسی فیملی کے گمشدہ ممبر کی جانکاری دےگا اسے انعام سے نوازا جائے گا۔
حیدرآباد جیسے بڑے شہر مں روزانہ بڑی تعداد میں لوگ اپنے گھر کو چھوڑ دیتے ہیں۔کچھ اپنے خاندانی تنازعات کی وجہ سے گھر چھوڑ دیتے ہیں جبکہ کچھ نجی وجوہات کی وجہ سے۔ حیدرآباد میں نومبر میں لاپتہ ہونے والے 40 افراد میں 11 نابالغ اور 14 خواتین شامل ہیں۔ حالانکہ پولیس مسلسل یقین دہانیاں کروا رہی ہے کہ ان کی تلاش جاری ہے، لیکن ان میں سے کسی کا کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے۔
حال ہی میں ایک معاملہ پیش آیا جس میں جُبلی ہیلس پولیس اسٹیشن میں ایک خاتون نے شکایت درج کروائی کہ اس کے شوہر اپنے دو بچوں کو چینئی لے گئے صرف اس لیے وہ کبھی نہ ملے۔ دوسرے معاملے میں ایک خاتون اپنے عاشق کے ساتھ چلی گئی ، جس کے بعد اس کے والد نے اپنی بیٹی کی گمشدگی کی شکایت درج کرائی، لیکن مہینے گزر چکے ہیں ان دونوں معاملوں میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔
رواں برس یکم جون سے 10 جون تک 540 افراد گمشدہ ہیں۔ جن سے 303 افراد کا تعلق حیدرآباد، سائبرآباد اور رچاکونڈا کمشنریٹ سے ہے، جبکہ 276 خواتین، 55 بچیاں، 26 لڑکے اور 183 مرد گمشدہ ہیں جس میں سے 222 کا ہی پتہ لگ پایا ہے۔ صرف نومبر میں ان تین پولیس کمشنریٹ کے دائرہ اختیار میں 38 سے 40 گمشدگی کے معاملے درج کرائے گئے ہیں۔
ریاست میں روزانہ اوسطا 60 افراد گمشدہ ہوتے ہیں ان میں سے اکثریت کا تعلق حیدرآباد کے نامور علاقوں سے ہوتا ہے۔ آخر یہ گمشدہ لوگ کہاں جارہے ہیں؟ کیا یہ عادی مجرموں کے ہاتھوں موت کی بلی چڑھ رہے ہیں؟والدین کو اس وقت تک سکون نہیں ملتا جب تک انکی نوعمر بیٹیاں محفوظ اور زندہ گھر نہیں پہنچتیں۔ صرف 50 فیصد گمشدہ خواتین اور لڑکیوں کا پتہ چل پایا ہے۔ ان میں سے باقی گمشدہ خواتین کو تلاش کرنا پولیس کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ پولیس گمشدہ معاملات کو شادی اور اپنے عاشق کے ساتھ بھاگ جانے والی خواتین کے ذیل میں درج کر لیتی ہیں اور کبھی ان کیسز کو اغوا کے طور پر بھی درج کرتی ہے۔
کے پی ایچ بی سیکستھ کیس کی رہائشی رمنا اپنے ذہنی طور پر کمزور بھائی کی تلاش کررہی ہیں جو 24 جون سے لاپتہ ہے۔ اسی علاقے میں چوکیدار کی حیثیت سے کام کرنے والے دوگی بالا سوامی نے معاملہ درج کرایا کہ ان کا 17 سالہ گونگا بیٹا راکیش 23 ستمبر سے گمشدہ ہے۔ انہوں نے اپنےعلاقے کے پولیس اسٹیشن میں متعدد بار معاملہ درج کرایا لیکن ابھی تک ان کے بیٹے کا کوئی پتہ نہیں چل پایا۔کے پی ایچ بی فورتھ کے رہائشی وی ایس راجو نے بتایا کہ ان کے دماغی طور پر کمزور 78 سالہ والد 21 جون سے گمشدہ ہیں لیکن اس کے بعد ان کی کوئی خبر نہیں ملی ہے۔ ویسے ہی انرا نگر میں روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والی 40 سالہ گیتا نے مئی 2017 میں گھر چھوڑا تھا اور کبھی واپس نہیں آئیں۔ان کی والدہ نے بالا نگر پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی لیکن ابھی تک پولیس ان کا سراغ نہیں لگا پائی ہے۔
لال گوڈا پولیس اس طرح کے گمشدہ معاملے کو حل کرنے میں مثال قائم کررہی ہے۔انہوں نے بغیر اطلاع کیے ہوئے غائب ہونے والے افراد کو تلاش کرنے کے لیے زبردست کو ششیں کی ہیں۔ انہوں نے لالاپیٹ ، شانتی نگر ، چندرا بابو نگر ، ستیہ نگر ، اندرا نگر ، لال گوڈا اور میٹگوڈا کے دائرہ اختیار کو تین علاقوں میں تقسیم کردیا ہے اور کسی بھی غیر متوقع واقعات پر نگاہیں رکھتے ہیں۔ سنہ 2016 سے 2019 کے دوران 69 گمشدہ افراد کے معاملے درج کیے گئے جس میں صرف ایک ہی معاملہ حل نہیں ہوسکا ہے۔ انہوں نے 68 گمشدہ خواتین کا پتہ لگایا اور انہیں بحفاظت ان کے اہل خانہ کو سپرد کردیا گیا۔
کے پی ایچ بی کالونی میں، ایسے واقعات کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے جس میں خواتین اپنی مرضی سے گھر چھوڑ رہی ہیں۔کچھ خواتین اپنے لکھے ہوئے خطوط کے ذریعہ اپنے فیصلے سے اہل خانہ کو مطلع کر کے گھر چھوڑ کر جارہی ہیں ۔