نظام الدین مرکز کو مکمل طور پر کیوں نہیں کھولا جا سکتا ہے اس سلسلہ میں ہائی کورٹ نے مرکزی حکومت سے اپنا موقف واضح کرنے کو کہا۔
مارچ 2020 میں عالمی وبا کورونا وائرس کے دوران تبلیغی جماعت کا ایک پروگرام نظام الدین مرکز میں ہوا تھا جس کے بعد لاک ڈاؤن نافذ ہوگیا تھا۔ تب اروند کیجریوال کے کہنے پر تبلیغی جماعت کے مرکز کو پولیس کے ذریعے بند کر دیا گیا تھا۔ Delhi Waqf Board Urge To Open Tablighi Markaz
عدالت نے مرکزی حکومت سے جاننا چاہا کہ وہ اسے مکمل طور پر کھولنے کے خلاف کیوں ہے؟ جب کہ حکومت نے تہواروں کے دوران اسے کھولنے پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔
جسٹس منوج کمار اوہری نے مرکز حکومت کے وکیل کو ہدایت کی ہے کہ وہ عدالت کو آگاہ کریں کہ عمارت کی تمام منزلیں کھولنے میں انہیں کیا اعتراض ہے۔ جب کہ حکومت تبلیغی جماعت کے مرکز کی پہلی منزل کو نماز کے لیے کھولنے پر رضامند ہو گئی ہے۔
عدالت نے کہا کہ اگر پہلی منزل کو نماز کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے تو دوسری منزل کو بھی اس کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
عدالت دہلی وقف بورڈ کی درخواست پر سماعت کر رہی تھی درخواست کے مطابق مارچ اور اپریل میں شب برات اور رمضان کے پیش نظر مسجد کھولنے کی درخواست کی گئی ہے۔
دہلی وقف بورڈ کے وکیل نے کہا کہ یہ ایک گنجان علاقہ ہے اور پہلی منزل پر تمام نمازیوں کو اجازت دینا دراصل کووڈ کا خطرہ پیدا کر دے گا؟؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ جب آپ کے پاس کئی منزلیں ہوں تو نمازی ایک ہی منزل پر جمع ہو کر نماز کیوں پڑھیں؟ حکومت کی منطق سمجھ سے بالا تر ہے۔
مسجد کی انتظامیہ کمیٹی کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل ریبیکا جان نے کہا کہ تبلیغی جماعت کے مرکز کو بند کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی ہے۔ اس پر پابندی کیوں لگائی جائے اور جب کہ دیگر مذہبی مقامات بند نہیں ہیں تو تبلیغی جماعت کے مرکز کے احاطہ کو کیوں نہیں کھولا جانا چاہیے؟
ایک حلف نامے میں مرکز نے بنگلے والی مسجد کو مکمل طور پر کھولنے کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ بنگلہ والی مسجد پر صرف چند لوگوں کو ہی نماز پڑھنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔
عدالت نے مرکزی حکومت کے وکیل کو 14 مارچ تک رپورٹ فائل داخل کرنے کو کہا ہے۔