سردی، گرمی اور برسات کے موسم میں کھلے آسمان کے نیچے کسانوں کی فصلیں منڈی سمیتی کی لاپرواہی کی وجہ سے خراب ہو جاتی ہیں، جس کا خامیازہ کسانوں اور تاجروں کو سہنا پڑتا ہے۔
ای ٹی وی بھارت کی ٹیم نے گراؤنڈ زیرو پر جاکر نریلا اناج منڈی میں تاجروں سے بات کی، تو انہوں نے اپنا درد بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ برسوں سے نریلا اناج منڈی میں کسانوں اور تاجروں کے لیے منڈی سمیتی کی جانب سےکوئی بھی سہولت نہیں دی جا رہی ہے۔
گزشتہ کئی برسوں سے کسانوں کا اناج کھلے آسمان کے نیچے پڑا رہتا ہے۔ اناج پر سردی گرمی اور برسات ہر طرح کے موسمی مار پڑتی ہے جس سے وہ خراب ہو جاتا ہے۔ اس کا نقصان کسانوں کو ہوتا ہے۔ لیکن منڈی سمیتی نے آج تک کسانوں کی پریشانی کو ذہن میں رکھتے ہوئے کسی بھی طرح کے شیڈ کی سہولت فراہم نہیں کی۔
حال میں گزشتہ برس منڈی سمیتی نے چار شیڈ ضرور بنائے جس میں ایک شیڈ کے نیچے 4000 بوری رکھی جا سکتی ہے یعنی کہ ان شیڈ کے نیچے 20 سے 25 ہزار بوریاں ہی رکھی جا سکتی ہیں۔
کسانوں کے آرام کرنے کے لیے دو کسان گھر کی عمارت بنی ہوئی ہے۔ ان میں بھی موسم کی مار پڑنے پر بوریوں کو رکھا جاتا ہے۔
پوری منڈی میں کل چھ شیڈ ہیں جن میں تقریبا 30 سے 35 ہزار بوریوں کو ہی رکھا جا سکتا ہے۔ منڈی کے کسانوں کا مال رکھنے کے لیے تقریبا 30 سے 35 ہزار بوریوں کو رکھنے کی جگہ ہے اور کسان لاگوں کونٹل آپنا مال لے کر آتے ہیں۔ جو باہر پڑا رہتا ہے جس کے خراب ہونے پر کوئی خرید دار نہیں ہوتا۔
سمیتی نے تاجروں سے پکی دوکان دینے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ کئی بار تاجروں سے پیسے بھی لیے جا چکے ہیں لیکن آج تک نئی اناج منڈی میں تاجروں کو پکی دوکانیں نہیں ملی ہے۔ س کی شکایت کئی بار حکومت سے کر چکے ہیں۔ لیکن معاملہ گزشتہ کئی برسوں سے وہیں رکا ہوا ہے۔ اس کا کوئی بھی حل نہیں نکلا ہے۔
تاجروں نے بتایا کہ نریلا ایشیا کی سب سے بڑی اناج منڈی ہے۔ یہاں پر دہلی، ہریانہ، پنجاب اور راجستھان سے کسان اپنا مال لے کر اچھے داموں پر بیچنے کے لیے آتے ہیں، لیکن آنے کے بعد انہیں کسی طرح کی کوئی بھی سہولت نہیں ملتی ہے۔ انہیں گھنٹوں تک لمبی قطار میں لگے رہنا پڑتا ہے جس سے منڈی میں جام کے حالات پیدا ہو جاتے ہیں۔
اگر کوئی تاجر اپنا پیسا بینک سے منڈی لے کر آتا ہے تو راستے میں لٹیرے ان پر محلہ کر دیتے ہیں، ایسے ہی کئی کسان اپنا مال بیچ کر منڈی سے بارہ نکلتا ہے تو اس کے ساتھ لوٹ ہو جاتی ہے۔ کئی بار منڈی میں اس طرح کے حادثات پیش آئے ہیں۔ اس طرح کے حادثات پر قابو پانے کے لیے بھی کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔