جمعیۃ علماء ہند کے قومی صدر مولانا محمود مدنی کی طرف سے ان کے وکیل ایم آر شمشاد نے ہندی اخبار 'دینک جاگرن' کو قانونی نوٹس جاری کیا ہے۔ اس کی وجہ 7 جولائی 2021 کو اخبار کے صفحہ نمبر 7 پر مدارس اسلامیہ سے متعلق جھوٹی اور گمراہ کن خبر کی اشاعت ہے۔
اس خبر میں انتہائی غلط اور بے بنیاد باتوں کو مدرسوں سے جوڑا گیا ہے اور آزاد مدرسوں کو غیر قانونی عمل کا گہوارہ بنا کر پیش کیا گیا ہے، جس سے ملک کے مسلمانوں کی شدید دل آزاری ہوئی ہے اور ملک میں لاکھوں بچوں کو مفت بنیادی ابتدائی تعلیم فراہم کرنے والے دینی اداروں کے سلسلے میں عوام میں غلط تاثر قائم ہوا ہے۔
حالانکہ ملک کے آئین کی دفعہ 29-30 میں تمام اقلیتوں کو اپنی پسند کے مطابق تعلیمی ادارہ قائم کرنے اور اسے چلانے، اسی طرح اپنی تہذیب، زبان اور رسم الخط کے تحفظ کا بنیادی حق ہے۔
جہاں تک آرٹی ای ایکٹ 2009 کا معاملہ ہے تو اس سلسلے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ (حکومت بنام پرامتی ایجوکیشنل اینڈ کلچرل ٹرسٹ 2013) موجود ہے، جس میں اقلیتی اداروں بشمول مدارس اسلامیہ کو اس قانون کے دائرے سے مستثنی رکھا گیا ہے اور اس سلسلے میں بنیادی دفعہ 30 کا حوالہ دیا گیا ہے۔
نوٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ مذکورہ ہندی اخبار کی خبر میں یہ ذیلی سرخی بھی لگائی گئی ہے 'نہیں لینا چاہتے مانیتا' جس میں کہا گیا ہے کہ 'زیادہ تر غیر مانیتا پراپت مدرسے، مانیتا کے لیے آویدن نہیں کرنا چاہتے ہیں، کیوں کہ مانیتا ملنے پر انھیں سرکاری محکموں کے ضابطوں پر عمل کرنا پڑتا ہے، چندے کا حساب دینا ہوتا ہے'
انہوں نے کہا کہ یہ الزام انتہائی غلط اور منفی تاثر پیدا کرنے والا ہے جو دینک جاگرن اخبار اور اس کے رپورٹر حسین شاہ نے خود سے وضع کیا ہے، جب کہ حقائق اس کے خلاف ہیں اور اس کے پس پشت اخبار کی بدنیتی ظاہر ہو تی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: