کسان رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کے بعد وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے کہا کہ آج کسان یونین کے ساتھ بات چیت ہوئی اور بھارت سرکار کے دو نئے قوانین اور ترمیم پر کلاج وائز بات کرناچاہتے تھے۔ ایم ایس پی پر بھی بات چیت ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ کسی فیصلہ پر نہیں پہنچ سکے۔ ایسے میں دونوں گروپوں نے یہ طے کیا کہ آٹھ تاریخ کو دوبارہ بات کریں گے۔ تومر نے کہا کہ بحث کے دوران ماحول اچھا تھا،لیکن قانون کو رد کرنے پر بضد رہنے کی وجہ سے کوئی راستہ نہیں نکل پایا۔
انہوں نے امید ظاہر کی جس طرح کی بات چیت آج ہوئی ہے۔ اس حساب سے اگلی میٹنگ میں بات چیت ہوگی اور ہم کسی حد تک کامیاب ہو جائیں گے۔
تومر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ دونوں کی رضامندی سے آٹھ تاریخ کی میٹنگ طے ہوئی ہے۔ سرکار کے من میں کسانوں کے تئیں عزت اور وقار ہے۔
سپریم کورٹ میں دائر عرضیوں کےسوال پر انہوں نے رائے زنی کرنے سے انکار کردیا۔انہوں نے کہا کہ کسان قوانین کو رد کیے جانے کی مانگ پر بضد رہے۔ ایسے میں راستہ کیا ہے؟ اس سوال پر تومر نے کہا ' راستہ نکالنے کے لیے تالیاں دونوں ہاتھ سے ہی بجتی ہیں'
تومر نے کہا کہ کسانوں اور سرکار کے درمیان جس طرح کی بات چل رہی ہے۔ اس کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ کسانوں کی بات یہ ہے کہ سرکار راستہ نکالے اور ہمیں تحریک ختم کرنے کا موقع دے۔
آٹھ تاریخ کی میٹنگ کے بعد اگلی تاریخ ملنے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ میڈیا سوال پوچھنے کے لیے آزاد ہے لیکن میرے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ تومر نے کہا کہ جب اس طرح کے موضوع ہوتے ہیں تو کئی دور میں بات چیت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسائل کے قانونی پہلوؤں پر بھی دھیان رکھنا پڑتا ہے۔ پورے ملک کو بھی دھیان میں رکھنا پڑتا ہے۔ کروڑوں کسانوں کے اپنے جذبات ہیں ، ان کے فائدے جڑے ہوتے ہیں۔
تاریخ پر تاریخ سے منسلک ایک سوال پر تومر نے کہا کہ سرکار نے قانون بنایا ہے تو کسانوں کا مفاد دھیان میں رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرکار کسان یونین کے ساتھ بات کررہی ہے۔ ہماری امید ہے کہ جن نکات پر کسانوں کو کوئی پریشانی ہونے والی ہے۔ ایسے موضوع لائے جائیں سرکار کھلے من سے بات کے لیے تیار ہے۔
وہیں تقریبا تین گھنٹوں کی بات چیت کے بعد کسان رہنما راکیش ٹکیٹ نے صحافیوں کو بتایا کہ حکومت زرعی اصلاحات کے قوانین پر نکتہ وار بات چیت کرنا چاہتی ہے اور اس کا ارادہ اس قانون میں ترمیم کرنے کا ہے، جبکہ کسان تنظیمیں ان تینوں قوانین کو واپس لئے جانے پر قائم ہیں۔ حکومت اور کسانوں کے مابین اگلی میٹنگ 8 جنوری کو ہوگی۔
مسٹر ٹکیٹ نے کہا کہ وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر تینوں قوانین پر بار بار نکتہ وار بات کرنے پر اصرار کرتے رہے جس کی وجہ سے تعطل قائم رہا۔ انہوں نے کہا کہ تینوں قوانین واپس لئے جانے تک کسانوں کی انجمنوں کا احتجاج جاری رہے گا۔
کسانوں کی تنظیمیں گذشتہ 40 دن سے قومی دارالحکومت کی سرحدوں پر احتجاج کر رہی ہیں۔ پچھلے دو دن سے بارش کے باوجود ، ان کا احتجاج جاری ہے۔
پچھلے دور میں ہونے والی بات چیت میں ، کسانوں اور حکومت کے مابین بجلی کے نرخ پر سبسڈی دینے اور پرالی جلانے والے کسانوں پر کارروائی نہ کرنے پر اتفاق رائے ہوگیا تھا لیکن زرعی اصلاحات کے قوانین کو واپس لینے اور ایم ایس پی کو قانونی حیثیت دینے پر تعطل قئم رہا تھا۔