سابق وزیر خزانہ اور کانگریس کے رکن پارلیمنٹ پی چدمبرم نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں سی ڈی ایس تقرری، این آر سی-این پی آر اور کانگریس میں قیادت کے فقدان پر بات کی اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ کانگریس قومی دارالحکومت میں سی اے اے مخالف مظاہرے میں سرگرم عمل ہے۔
'2010 کی این پی آر 2011 کی مردم شماری میں مدد کے لیے کیا گیا تھا لیکن 2020 کا این پی آر، این آر سی کی دوسری شکل ہے'
سابق وزیر خزانہ اور کانگریس کے سینیئر رہنما پی چدمبرم نے کہا کہ قومی آبادی رجسٹر کا کام 2010 میں ہی منتخب ریاستوں میں مکمل کیا گیا تھا، این پی آر 2011 کی مردم شماری میں مدد کے لیے کیا گیا تھا، ایک بار مردم شماری مکمل ہونے کے بعد ہم نے مشق روک دی تھی اور ہم نے اسے مزید نہیں کیا اور جب این پی آر عمل میں لایا گیا تھا تو این آر سی کا کوئی ذکر بھی نہیں تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ 2010 میں این پی آر فارم میں صرف 15 نکات تھے جو مردم شماری سے ہی متعلق تھے اور آج کا این پی آر 21 نکات پر منحصر ہے جس میں آخری رہائش گاہ، آپ کے والد اور والدہ کی جائے پیدائش، آدھار نمبر کیوں پوچھ رہے ہیں؟ جس کی وجہ سے آج کا این پی آر پہلے کے این پی آر سے بالکل مختلف ہوجاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا "وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور متعدد وزراء نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ یہ این پی آر، این آر سی کا پہلا قدم ہے۔"
کانگریس پارٹی نے مستقل طور پر شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت کی ہے
شہریت ترمیمی قانون کے خلاف طلبا کے احتجاج کے بعداچانک اٹھنے والی اپوزیشن کی طرف سے ردعمل کے بارے میں پوچھے جانے پر چدمبرم نے کہا کہ "کانگریس پارٹی نے مستقل طور پر شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت کی ہے اور ہم تحریکوں، ریلیوں اور آل پارٹی اجلاس میں بھی شامل رہے ہیں۔
واضح رہے کہ شہریت ترمیمی بل گزشتہ برس کے آخری ماہ کے شروع میں بھارتی پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا اور اسی ماہ کے 12 دسمبر کو صدارتی منظوری کے ساتھ ایک ایکٹ بن گیا تھا۔
یہ قانون پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے غیر مسلم مہاجرین کو ہندوستانی شہریت فراہم کرتا ہے جو 31 دسمبر 2014 کو یا اس سے پہلے بھارت پہنچے تھے۔