دور قدیم میں جب سنیما نہیں تھا تب شہزادے اور نوابین تفریح کے لیے مختلف ادبی نشستوں کے ذریعہ ہی ادبی ذوق کی تسکین کیا کرتے تھے۔
دہلی کے آخری داستان گو میر باقر علی جب سنیما نے اپنی جگہ بنانی شروع کی تو داستان گوئی جیسی صنف دم توڑتی چلی گئی۔ اس سے نہ صرف ادب کو نقصان پہنچا بلکہ داستان گوئی سے منسلک فنکاروں کی معاشی حالت خراب ہوئی۔
میر باقر علی کو دہلی کا آخری داستان گو کہا جاتا ہے۔ دہلی یونیورسٹی کے سبکدوش پروفیسر فیروز دہلوی کے مطابق اس صنف میں کام کرنے والے متعدد نوجوان اپنے آپ کو داستان گو تو کہتے ہیں لیکن جو انداز میر باقر علی کی داستان گوئی کا تھا اس کا ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔
پروفیسر فیروز دہلوی بتاتے ہیں کہ داستان گو میر باقر علی بزم و رزم کو اس انداز سے بیان کرتے تھے کہ جیسے آنکھوں کے سامنے پورا نقشہ کھنچ دیا ہو۔ خاص بات یہ تھی کہ جب وہ داستان گوئی کرتے تھے تو بیک وقت ضرورت اداکاری بھی کرتے تھے۔ اس سے ان کی آواز کی ضرب اور لب و لہجہ سے سامعین پر ایک خاص اثر چھوڑتا تھا۔
ان کی تصانیف میں خلیل خان فاختہ، پاجی پڑوس، گاڑھے خان نے ململ جان کو طلاق دی، گاڑھے خان کا دکھڑا، باتوں کی باتیں، بہادر شاہ بادشاہ کا مولا بخش ہاتھی، سرائے کا نقشہ، فقیر کا تکیہ، کانا باتی قابل ذکر ہیں۔