اردو

urdu

ETV Bharat / city

Public Opinion on Hijab Controversy: حجاب کا استعمال لڑکیوں کا حق، اعتراض کرنا غلط

کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں مسلم لڑکیوں کے حجاب پہن کر داخلے کی بندش پر دہلی کے سرکردہ شخصیات اور خواتین نے اپنی اراء پیش کرتے ہوئے کہا کہ تعلیمی اداروں میں کوئی ڈریس کوڈ نہیں ہوتا ہے۔ حجاب پہننا لڑکیوں کا اپنا حق ہے، اسے طول دینا غلط ہے Educational institutions do not have a dress code۔

Public Opinion on Hijab
Public Opinion on Hijab

By

Published : Feb 15, 2022, 10:02 AM IST

کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر بندش اور پھر اس معاملہ کو ہندو سخت گیر تنظیموں کی جانب سے سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی گئی اور مسلم لڑکیوں کو ہراساں کیا گیا جس کے خلاف ملک بھر میں سخت ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے۔ ای ٹی وی بھارت نے اس مسئلہ پر دہلی کی خواتین اور تعلیمی اداروں سے جڑے لوگوں سے بات کی۔ Public Opinion on Hijab at Delhi۔

ویڈیو دیکھیے۔


دہلی یونیورسٹی میں اردو شعبے کے پروفیسر ابوبکر عباد نے کہا کہ پردہ ہر مذہب میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ حجاب معاملے کو بلا وجہ طول دیا جا رہا ہے، ملک کے اندر کئی ایسی ریاست ہیں جہاں کی عورتیں گھونگھٹ کرتی ہیں تو کیا اس پر اعتراض کرنا چاہئے؟ انہوں نے کہاکہ تعلیمی اداروں میں کوئی ڈریس کوڈ نہیں ہے اور آئین ہند کے مطابق کوئی بھی کپڑا پہن کر تعلیم حاصل کی جاسکتی ہے۔ کرناٹک کے اندر ایک مسلم لڑکی کو گھیر کر جو نعرے لگائے گئے وہ قابل مذمت ہے۔ Educational institutions do not have a dress code۔


جواہر لعل یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر راحت زبین نے کہا کہ حجاب کے مدعے کو خواہ مخواہ طول دیا جا رہا ہے۔ کالج میں کوئی ڈریس کوڈ نہیں ہوتا ہے۔ حجاب مسلم لڑکیوں کا نہیں بلکہ ہر لڑکی کا مسئلہ ہے۔ اس ملک میں ہر کسی کو اپنی رضامندی سے کپڑا پہنے کا حق ہے۔


ٹیک مہندرا میں کام کرنے والی بی ٹیک تعلیم یافتہ فوزیہ نے کہا کہ حجاب ان کا اپنا حق ہے اس پر اعتراض غلط ہے، مسکان کے اقدام کی ستائش پوری دنیا میں ہو رہی ہے۔ یہ بہادری دوسری لڑکیوں کےلیے ایک مثال ہے۔

مزید پڑھیں:

وہیں دہلی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے والی شاہجہاں نے کہا کہ لڑکیوں کے ڈریس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ کرناٹک کی مسلم طالبہ مسکان نے ہمت و بہادری کا جو مظاہرہ پیش کیا ہے وہ دوسری لڑکیوں کے لیے مثال ہے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details