ان خواتین کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ 16 اپریل کو رات قریب گیارہ بجے دو خواتین مسلم اکثریتی علاقے حوض قاضی پہنچتی ہیں اور مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز نعرے بازی شروع کردیتی ہیں، اس دوران یہ خواتین لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرتی ہیں اور بہت سے دروازوں اور دکانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش بھی کرتی ہیں۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ حال ہی میں حوض قاضی علاقے میں پارکنگ کو لے کر فرقہ وارانہ کشیدگی پائی گئی تھی، درخواست گزار نے دونوں خواتین کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے لئے علاقے کے ایس ایچ او اور ڈی سی پی کو خط لکھا تھا لیکن دونوں پولیس افسران نے خواتین کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔
سماعت کے دوران اپنی ایکشن ٹیکن رپورٹ میں کہا کہ دونوں خواتین کے خلاف کوئی قابل شناخت جرم نہیں بنایا جاتا ہے، پولیس کے مطابق یہ دونوں خواتین ایک این جی او سے وابستہ ہیں اور لاوارث کتے کو کھانا کھلانے نکلی تھیں، وہاں دونوں خواتین کے علاقے کے کچھ لوگوں سے بحث ہو گئی۔
ایکشن ٹیکن رپورٹ میں پولیس نے عدالت کو بتایا کہ ایک مقامی صحافی نے حقائق کی تحقیقات کے بغیر ہی دونوں خواتین سے متعلق ویڈیو اپ لوڈ کر دیے ہیں، جس کے بعد عدالت نے کہا کہ دونوں خواتین کے خلاف جو الزامات عائد کیے گئے ہیں وہ شکایت کنندہ نے حلف نامے کے طور پر دیئے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ اگرچہ دونوں خواتین غیر سرکاری تنظیموں سے وابستہ ہیں لیکن ان سے توقع نہیں کی جاتی ہے کہ وہ بغیر اجازت اجازت کے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کریں گی، یہ دفعہ 188 کے تحت جرم ہے جس کی تفتیش ہونی چاہئے۔