قومی دارالحکومت دہلی میں لیفٹیننٹ گورنر انل بیجل نے دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کو ایک نوٹس جاری کیا ہے جس میں ان سے استفسار کیا گیا ہے کہ آیا انہیں کمیشن کے عہدے سے کیوں نہیں ہٹایا جائے؟
اس بات کی اطلاع آج دہلی ہائی کورٹ کودی گئی۔
اس کے بعد جسٹس راجیو سہائے اینڈلا کی سربراہی میں بینچ نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے سماعت کے بعد آج دہلی ہائی کورٹ نے عرضی گزار کو ڈپٹی لیفٹیننٹ گورنر کے فیصلے کا انتظار کرنے کی ہدایت دی ہے۔
دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین کو نوٹس واضح رہے کہ ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کو دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین کے عہدے سے ہٹانے کے لیے دہلی ہائی کورٹ میں درخواست دی گئی ہے، یہ درخواست وکیل الکھ آلوک سریواستو نے دائر کی ہے، درخواست میں کہا گیا ہے کہ ظفر الاسلام نے بھارت کو نیچا دکھانے والا بیان دیا ہے۔
ظفر الاسلام کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ لیکن دہلی حکومت کارروائی نہیں کررہی ہے۔
لیفٹیننٹ گورنر انل بیجل نے دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام کو ایک نوٹس جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انہیں کمیشن کے عہدے سے کیوں نہیں ہٹایا جائے؟ درخواست میں مطالبہ کیا گیا کہ ظفرالاسلام کو دہلی اقلیتی کمیشن ایکٹ کے تحت دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین کے عہدے سے ہٹا دیا جائے۔
درخواست میں ظفر الاسلام کی 28 فروری کو فیس بک پر لکھی گئی پوسٹ کا ذکر کیا گہا ہے، جس میں ہندو برادری کے خلاف اشتعال انگیز اور دھمکی آمیز تبصرے کیے گئے تھے۔
درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ظفر الاسلام خان کے یہ ریمارکس دونوں مذاہب کے مابین تنازعہ پیدا کرنے کی غرض سے کی گئی تھیں، یہ ریمارکس ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں، جب بھارت کورونا جیسی عالمی وبا کی زد میں ہے۔
دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر انل بیجل نے ایک سوال کرتے ہوئے دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام کو ایک نوٹس جاری کیا ہے واضح رہے کہ دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ظفر الاسلام خان نے دہلی ہائی کورٹ میں اپنے خلاف ہونے والے غداری کے مقدمے میں پیشگی ضمانت کے لیے درخواست داخل کی ہے، ایڈووکیٹ ورندا گروور نے کہا کہ اس درخواست کی سماعت 12 مئی کو ہوگی۔
دہلی پولیس نے 72 سالہ ظفر الاسلام خان کو حراست میں لینے کی کوشش کی جوکسی وجہ سے کامیاب نہیں ہوسکی۔
ورنداگرورنے تقریباً68 صفحات پرمشتمل پیشگی ضمانت کی درخواست داخل کی ہے، جس میں ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کے اس ٹویٹ کونقل کیا گیا ہے، جس کی بنیادپر ان پرغداری کامقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ڈاکٹرخان کی تعلیمی اہلیت کی تفصیلات دی گئی۔
پھرمختلف میڈیا کے ذریعہ عرب دنیا کی ناراضگی کی رپورٹنگ کی کاپی شیئر کی گئی۔اس کے علاوہ مختلف تفصیلات دی گئی ہے۔
ورنداگرورنے ظفر الاسلام خان کے لیے پیشگی ضمانت کی درخواست دہلی ہائی کورٹ میں داخل کی ہے، جسے ابھی لسٹ ہوناباقی ہے۔
واضح رہے کہ ڈاکٹر ظفر الاسلام پر دو فرقوں میں عدم رواداری کو بڑھاوا دینے، مساوات اور ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کے تصور کے ساتھ کام کرنے کے تحت ایف آئی آردرج کی گئی ہے۔
جسٹس راجیو سہائے اینڈلا کی سربراہی میں بینچ نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے سماعت کے بعد آج دہلی ہائی کورٹ نے عرضی گذار کو ڈپٹی لیفٹیننٹ گورنر کے فیصلے کا انتظار کرنے کی ہدایت دی ہے یاد رہے کہ فیس بک پوسٹ میں مسٹر خان نے لکھا تھا کہ 'ملک میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہورہا ہے اور عرب کے متعدد ممالک مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہیں، خاص طور سے انہوں نے کویت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ کویت کا شکریہ ادا کرتے ہیں، جنہوں نے بھارت کے مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے، بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ کچھ ہوتا ہے تو عرب ممالک خاموش نہیں رہیں گے'۔
ذاکرنائک اور ایسے ہی متعدد لوگوں کا نام لیتے ہوئے ظفرالاسلام نے کہا، وہ (ذاکر نائک) بھی عرب میں ایک مقام رکھتے ہیں، اگرضرورت پڑی تو وہ عرب سے بات چیت کریں گے۔