در اصل گذشتہ اتوار کی صبح نوئیڈا سیکٹر-37 میں شرپسندوں نے کاظم احمد نام کے ایک بزرگ مسلم شخص کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ کاظم احمد نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا تھاکہ اکثریتی فرقہ کے شر پسندوں نے انہیں بے دردی سے مارا پیٹا اور ہراساں کیا۔ انہیں برہنہ کرکے مسلمان ہونے کی تصدیق کی۔ ان کی داڑھی نوچی گئی ان کی آنکھ پھوڑنے کی بھی کوشش کی۔ شر پسندوں نے مسلم مخالف کلمات بھی کہے۔ تاہم بزرگ شخص کی جانب سے باضابطہ پولیس میں شکایت نہ کرنا کیس کو کمزور کرنا جیسا ہے۔
اطلاعات کے مطابق متاثر شخص کی جانب سے باضابطہ ایف آئی آر درج نہیں کرائی گئی ہے۔ ان لوگوں کی تساہلی، ڈھیلے پن اور ڈھل مل رویہ سے پولیس کے لوٹ مار کے مؤقف کو تقویت مل رہی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اگر متاثرہ بزرگ کی جانب سے ایف آئی آر درج کرائی جاتی تو یقیناً کاروائی متوقع تھی۔ تھانہ سیکٹر 20 نوئیڈا میں تعینات انسپیکٹر صلاح الدین خود اپنی ٹیم کے ہمراہ متاثرہ کے گھر گئے تھے لیکن وہاں بھی کوئی تحریری شکایت درج نہیں کرائی گئی۔
حالانکہ متاثرہ بزرگ کے بھانجے نے نوئیڈا کے پولیس کمیشنر آلوک سنگھ اور ڈی ایم سہاس ایل وائی کے ای میل پر شکایت درج کرانے کا دعویٰ کیا ہے۔ جبکہ سیکٹر 39 کے ایس ایچ او آزاد سنگھ تومر کے وہاٹس اپ نمبر پر کمپلینٹ بھیجی گئی ہے۔ وہیں آج ڈاک کے ذریعے ایف آئی آر درج کرانے کی درخواست ارسال کی گئی ہے۔ اس سے یہ بات تو یقینی ہے کہ اب تک تمام معاملہ کاغذی کارروائی تک ہی محدود ہوتا نظر آرہا ہے۔
پولیس کا موقف بار بار سامنے آرہا ہے کہ بزرگ شخص کو نوئیڈا میں ایف آئی آر درج کرانی چاہیے تھی۔ اگر چوکی انچارج نے نظر انداز کیا تو آگے بھی جا سکتے تھے۔ لیکن وہ فوراً دہلی چلے گئے اور جامعہ تھانہ میں تحریری شکایت دی۔ نوئیڈا میں کہیں بھی کوشش نہیں کی۔ تو پھر کاروائی کیسے اور کس پر ہو گی۔
واضح رہے کہ کاظم احمد (62) اہل خانہ کے ساتھ دہلی کے ذاکر نگر میں رہتے ہیں۔ اتوار کے روز وہ کسی رشتہ دار کی شادی میں شرکت کے لیے علی گڑھ جاریے تھے۔ اس کے لیے وہ دہلی سے نوئیڈا میں سیکٹر 37 بس اسٹینڈ پہنچے۔ کار میں موجود نوجوانوں نے انہیں علی گڑھ جانے کے لیے لفٹ دیتے ہوئے گاڑی میں بیٹھا لیا ور آگے جا کر مار پیٹ کرتے ہوئے 1200 روپے لوٹ لیے۔ شرپسندوں نے ان کی آنکھ فوڑ نے کی بھی کوشش کی آخر میں انہیں نیم مردہ حالت میں سڑک پر پھینک دیا گیا۔ شرپسندوں نے بزرگ کی چپل بھی چھین لیے۔ واقعے کے بعد بزرگ کی ایک راہ گیر نے مدد کی اور گاڑی رکوا کر پولیس چوکی تک پہنچانے کا بندوبست کیا۔
کاظم کا کہنا ہے کہ ایکسپریس وے پر ہونے کی وجہ سے میری جان بچ گئی اگر سنسان علاقے میں ہوتا تو یقیناً وہ مار دیاجاتا'۔
ان کے مطابق شرپسندوں نے داڑھی کھینچی، انہیں زد کوب کیا گیا، گلا دبانے کی کوشش کی، نقد رقم لوٹ لی اور ان کی چپلیں بھی چھین لی۔ بلکہ پاجامہ بھی اتار دیا تھا۔ پھر گاڑی سے دھکیل کر فرار ہو گئے۔ کپڑے اور داڑھی دیکھ کر دانشتہ طور پر نشانہ بنایا گیا۔ جبکہ پولس اسے مذہبی منافرت کی بنیاد پر تشدد نہیں بلکہ لوٹ پاٹ اور ڈکیتی کا معاملہ قرار دے رہی ہے۔ تاہم بزرگ شخص کی جانب سے باضابطہ شکایت نہ کرنا قانونی کارروائی کو کمزور کرنا سمجھا جارہا ہے۔'